سائنسدانوں نے معدے اور دماغ کے درمیان پراسرار تعلق دریافت کرلیا

سائنسدانوں نے معدے اور دماغ کے درمیان ایک پراسرار تعلق کا پتہ چلایا ہے جو انسانی دماغ کے حجم میں اضافے میں مددگار ثابت ہوا ہے، حالانکہ دیگر جانوروں کا دماغی حجم اس سے کہیں کم ہوتا ہے۔

امریکہ کی نارتھ ویسٹرن یونیورسٹی کی تحقیق میں معدے میں موجود جرثوموں پر تجربات کیے گئے۔ تحقیق کے دوران معلوم ہوا کہ انسانی معدے میں موجود جرثومے دماغ کو توانائی فراہم کرتے ہیں، جبکہ دوسرے جانوروں کے معدوں میں یہ جرثومے توانائی ذخیرہ کرتے ہیں۔

دماغی ٹشوز کی میٹابولک ضروریات کو پورا کرنے کے لیے جسم میں کئی تبدیلیاں آتی ہیں تاکہ بڑے دماغی ٹشوز کو معاونت فراہم کی جا سکے۔ محققین اس بات کو جانچنا چاہتے تھے کہ معدے میں موجود مفید بیکٹیریا اس عمل میں کوئی کردار ادا کرتے ہیں یا نہیں۔

اس مقصد کے لیے، محققین نے چوہوں کے جسموں میں انسانوں اور دیگر جانداروں کے معدے کے جرثومے داخل کیے اور ان کے اثرات کا موازنہ کیا۔ انہوں نے چوہوں کے جسمانی وزن، جگر کی فعالیت، چربی کی مقدار اور خالی پیٹ گلوکوز کی سطح کا تجزیہ کیا۔

محققین نے پایا کہ انسانوں کے بیکٹیریا والے چوہوں میں خالی پیٹ گلوکوز اور خون میں چکنائی کی سطح زیادہ تھی، جبکہ کولیسٹرول کی سطح کم تھی۔ ان چوہوں کا جسمانی وزن بھی دوسرے گروپوں کے مقابلے میں کم بڑھا۔

اس سے یہ اشارہ ملا کہ انسانی معدے کے جرثومے توانائی ذخیرہ کرنے کی بجائے دماغ کو ایندھن فراہم کرنے والی شکر تیار کرنے کو ترجیح دیتے ہیں۔ محققین کو پہلے ہی یہ توقع تھی کہ انسانی بیکٹیریا کے اثرات دیگر جانوروں کے بیکٹیریا سے مختلف ہوں گے۔

یہ تحقیق اس بات کی طرف اشارہ کرتی ہے کہ جب انسانی دماغ کا حجم ارتقائی عمل میں بڑھ رہا تھا، تو معدے میں موجود جرثوموں کے افعال بھی تبدیل ہونے لگے تاکہ دماغ کو درکار توانائی فراہم کی جا سکے۔

محققین کا کہنا ہے کہ دماغ کی نشوونما اور اس کے حجم کو برقرار رکھنے کے لیے ہمیں معدے میں موجود بیکٹیریا کی مدد کی ضرورت ہوتی ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ بیکٹیریا بڑی آنت میں رہ کر ایسے مرکبات تیار کرتے ہیں جو انسانی جسم کے مختلف افعال پر اثر انداز ہوتے ہیں۔

یہ تحقیق جرنل Microbial Genomics میں شائع ہوئی ہے۔