صوبائی گرانٹ کی گونج

پشتو کی ایک کہاوت ہے کہ بھوکے کو تو ے پہ پڑی روٹی بھی بہت دور سے دکھائی دیتی ہے اس لئے تو سرکاری جامعات بالخصوص بڑی اور پرانی یونیورسٹی کے ملازمین بڑی بے تابی سے منتظر ہیں کہ صوبائی حکومت نے صوبے کی تیرہ قدرے زیادہ بدحال یونیورسٹیوں کیلئے تین ارب روپے گرانٹ کاجو اعلان اور ساتھ ہی ان میں سے ایک ارب فوری دینے کی جو ہدایت کی ہے اس پر عملدرآمد کب ہوگا؟ اب ایک ارب جب تیرہ یونیورسٹیوں پر تقسیم ہو جائے تو خود اندازہ لگائیں کہ ہر ایک کو کتنا کتنا حصہ ملے گا؟ جہاں تک پشاور یونیورسٹی کا سوال ہے تو یہ بات ممکن ہے کہ حکومت کے علم میں نہ ہو مگر ڈھکی چھپی نہیں کہ پشاور یونیورسٹی کا ماہانہ خرچہ بے لگام مہنگائی اور ہر سال تنخواہوں اور پنشن میں اضافے کے سبب 40کروڑ روپے سے بڑھ گیا ہے اب بالفرض اگر تین ارب کی  پہلی قسط میں پشاور یونیورسٹی کو سب سے زیادہ یعنی15کروڑ بھی مل جائیں تو باقیماندہ 25کروڑ روپے کہاں سے آئینگے؟ جامعہ کو اس وقت تنخواہوں کی مد میں ماہانہ 22کروڑ پنشن کیلئے10کروڑ روپے سے زائد جبکہ الاؤنسز اور یوٹیلٹی بل اسکے علاوہ ہیں یونیورسٹی کے اس اصرار اور تکرار کے باوجود کہ ان کے اکاؤنٹس خالی پڑے ہیں‘یونیورسٹی ملازمین بالخصوص کلاس تھری اور کلاس فور کو یقین نہیں آتا بلکہ وہ تو اس بات پر مصر ہیں کہ یونیورسٹی کے اکاؤنٹس بھرے پڑے ہیں‘چلئے یونیورسٹی انتظامیہ کی فریاد اورملازمین کے اصرار اور دعوے کو ایک طرف رکھ کر فرض کرلیتے ہیں کہ مذکورہ25 کروڑ کی ماہانہ کمی یا خسارے میں سے اگر10کروڑ یونیورسٹی کے اکاؤنٹس سے نکل بھی آئیں تو مزید15 کروڑ کا خلا ء کیسے پر ہوگا؟ یہ ابتری اس کے باوجود طاری ہوئی ہے کہ جامعہ پشاور نے امسال کمال ہوشیاری کا مظاہرہ کرتے ہوئے سات ایپلائیڈ میڈیکل سبجیکٹ  بھی متعارف کروا کر جزوی میڈیکل میں بھی خوب جی بھر کر داخلے دے دیئے جس کے نتیجے میں ممکن ہے کہ جلد یہی جامعہ کی فیکلیٹز چھ سے
 سات ہو جائینگی مگر مالی بدحالی بدستور چمٹی ہوئی نظر آرہی ہے حکومتی گرانٹ کی امید پر پلنے والے بعض ملازمین کے مطابق ممکن ہے کہ مذکورہ تین ارب روپے صوبائی گرانٹ ان13ارب کی قسط ہو جس کا وعدہ یا اعلان حکومت نے اپنے بجٹ میں کیا تھا؟ بہتر ہوگا کہ ایسا ہی ہو لیکن حالات و واقعات اور حکومتی مزاج اور ترجیحات سے واقف لوگوں کے نزدیک ایسا ہر گز نہیں ہوگا مطلب صوبے کی یونیورسٹیوں بالخصوص جامعہ پشاور سمیت پرانی درسگاہوں کی مالی ابتری جوں کی توں رہے گی‘ کچھ عرصہ قبل پشاور کیمپس کی جامعات کے ملازمین نے اپنے مشترکہ طویل احتجاج کے دوران جامعات اساتذہ کی فیڈریشن فپواسا کی تائید سے یہ مطالبہ بار بار دہرایا تھا کہ حکومت صوبے کی32 سرکاری یونیورسٹیوں کیلئے کم از کم50 ارب مختص کر دے اور ساتھ ہی پراونشل یا صوبائی اعلیٰ تعلیمی کمیشن کا قیام بھی عمل میں لایا جائے جیسا کہ ملک کے دوسرے صوبوں میں کیا گیا ہے مگر کیا کہئے کہ حکومت جامعات کی مالی سرپرستی اور مسائل کے حل کی بجائے ایکٹ ترامیم کے پیچھے پڑ گئی جس کے نتیجے میں کوئی چاہے یا نہ چاہے لیکن جامعات کی رہی سہی خود مختاری بھی دفن ہو جائے گی‘ ہر چند کہ ایکٹ ترامیم تاحال لاگو یا نافذالعمل نہیں ہوئیں مگر اثرات کا سامنے آنا شروع ہو چکا ہے جس کی ایک مثال پشاور یونیورسٹی کے اساتذہ کی ترقیوں اور خالی اسامیوں کو پر کرنے کے مسئلے کا لٹک جانا ہے‘ جامعہ کے اساتذہ جن میں بڑی تعداد پی ایچ ڈی ہولڈر خواتین اساتذہ کی بھی ہے سال2018ء سے ترقیوں کے منتظر ہیں مگر اب کہا جارہا ہے کہ اس کے لئے بھی حکومتی منظوری لازمی ہوگی؟ مطلب یہ کہ یونیورسٹیوں کی خود مختاری اب ملازمین کیلئے عیدین پر اپنی صوابدید پر چھٹیوں اور مقررہ دفتری اوقات کار کی پرواہ کئے بغیر اپنی مرضی سے آنے جانے تک محدود ہوگئی ہے چلئے دیکھتے ہیں کہ صوبائی حکومت کے اعلان کردہ تین ارب روپے گرانٹ کی پہلی قسط یعنی ایک ارب روپے میں سے مالی طور پر سب سے زیادہ ابتر پشاور یونیورسٹی کا حصہ کتنا ہوگا؟ کب ملے گا؟ اور یہ کہ جامعہ دسمبر کی تنخواہ اور پنشن کی ادائیگی بروقت کرسکے گی یا کئی ہفتے بعد؟۔