لوکل گورنمنٹ کی فعالیت 

کبھی کبھی خیال آ تا ہے منٹو نے سچ ہی  تو کہا تھا کہ حکومت حماقت کا دوسرا نام ہے ہم کئی برسوں سے ہر دور میں  ارباب اقتدار کی منہ  سے یہ  سنتے چلے  آئے ہیں کہ لوکل گورنمنٹ کو خود مختار اور مضبوط بنایا جا رہا ہے  پر عملاً کسی حکومت نے بھی ابھی تک  صدق دل سے  اپنے اس بیان کو عملی جامہ نہیں  پہنایا ورنہ پشاور میں اگلے روز  لوکل گورنمنٹ کے اراکین اور پولیس کے درمیان جو کشمکش پیدا ہوئی وہ کبھی نہ پیدا ہوتی‘ اب بھی کچھ بگڑا نہیں   ارباب بست و کشاد فوراً سے پیشتر اس کشمکش کو ختم کرنے کے لئے لوکل گورنمنٹ کو وہ مالی اور انتظامی اختیارات سونپ دیں تاکہ عام آ دمی کے چھوٹے موٹے مسائل بلدیاتی نمائندے اس کے دروازے کی دہلیز پر ہی حل کر سکیں۔امریکہ کی ریاست New Orleansمیں اگلے روز دہشت گردی کے مبینہ واقعہ  پر ہمیں  اپنے ایک قاری نے لکھا ہے کہ عین ممکن ہے کہ امریکہ چونکہ اپنے ہاں سے غیر ملکی تارکین وطن کو کسی نہ کسی بہانے سے نکالنا  چاہتا ہے اور ان کا قافیہ تنگ کرنا چاہتا ہے‘ وہ یہ  اقدام اٹھانے  سے پہلے خود اس قسم کا ڈرامہ رچا کر دنیا کو یہ تاثر دینا چاہتا ہو کہ چونکہ اس قسم کی دہشت گردی امریکہ میں مقیم  غیر ملکی  باشندے کر رہے ہیں ان کے لئے امیگریشن کے قوانین سخت سے سخت کرنا ضروری ہے۔

 یاد رہے کئی لوگ اب تک نائن الیون کے واقعہ کی صداقت پر بھی  یقین نہیں رکھتے اور ان کی دانست میں وہ ایک ڈرامہ تھا اور اس کی آ ڑ میں امریکہ جن ممالک کے خلاف عسکری  کاروائی کرنا چاہتا تھا وہ اس نے کی‘بہرحال جتنے منہ اتنی باتیں‘چند روز میں دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہو جائے گا‘سچ اور جھوٹ کا فیصلہ ہو جائے گا‘ اس قاری نے اپنے اس موقف کے حق میں یہ دلیل دی ہے کہ امریکہ نے ضیا ء الحق کو اڑانے کے واسطے پاکستان میں تعنیات اپنے سفیر کی  زندگی کی بھی قربانی دینے سے بھی  دریغ نہیں کیا تاکہ کسی کو یہ شک نہ ہو کہ اس نے ضیاء الحق کو اس لئے موت کے گھاٹ اتارا ہے کہ اس نے ایک ہوں مسلم حرم کی پاسبانی کے لئے نیل کے ساحل سے لے کر تا بخاک کاشغر والی باتیں  کرنا شروع کردی تھیں ‘امریکہ کب چاہتا تھا کہ مصر سے لے کر وسطی ایشیا کے تمام اسلامی ممالک ایک پلیٹ فارم پر جمع ہوں وہ تو بھٹو مرحوم سے اس بات پر بھی نالاں تھا کہ اس نے کیوں اسلامی ممالک کے سربراہان کی کانفرنس 1974 ء میں لاھور میں منعقد کروائی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔