خیبرپختونخوا‘ تعلیم کی کسمپرسی

ایک چینل کی اس رپورٹ کو دیکھ کر میری حیرت کی انتہا نہ رہی کہ سال رواں میں تعلیم پر1.5فیصد بجٹ خرچ ہو رہا ہے یعنی یہ کل بجٹ کا سو روپے میں ایک روپیہ اور پانچ پیسے غالباً بنتا ہے‘ اس سے پاکستانی قوم تعلیم یافتہ اور ہنر مند ہوگی اور دوسری اقوام کیساتھ کندھے سے کندھا ملا کر چلنے کے قابل ہو جائے گی؟ جہاں تک وسائل کی بات ہے تو کہتے ہیں کہ پاکستان مالامال ہے اور یہ کہنا بالکل درست بھی ہے مگر سوال یہ ہے کہ قدرتی وسائل کو ملکی ترقی اور قوم کی آسودہ حالی کیلئے بروئے کار لانے والے کون ہونگے؟ کہاں سے آئینگے؟ اور اب تو خیر سے آبیل مجھے مار کے مصداق ہمارے اپنے ہی ہاتھوں موسمیاتی تبدیلی قدرتی وسائل کے پیچھے کچھ اس قدر پڑ گئی ہے کہ برف کے پہاڑ اور قدرتی ذخائر یعنی گلیشیئر بھی غیر فطری طور پر پگھلنا شروع ہو گئے ہیں‘ جس کے سبب  پانی کے ذخائر بڑی تیزی سے  معدوم ہونے کیساتھ جب گلیشیئر پھٹ جائے تو سیلاب راستے میں آنیوالا سب کچھ بہا کر لے جاتا ہے1.5فیصد بجٹ سے تعلیم حاصل کرنے والی قوم نے سال2022ء میں موسمیاتی تبدیلی کے ہاتھوں خوار ہونے سے کوئی سبق نہیں سیکھا بلکہ باعث حیرت امر تو یہ تھا کہ قوم کے بڑے بڑوں نے کلائمنٹ چینج یا موسمیاتی تبدیلی کے سبب برپا ہونیوالی تباہی کو مون سون کا نام دیا اب سوچنے کی بات یہ ہے کہ آیا1.5 فیصد تعلیمی بجٹ کی بدولت ہم ترقی کی منازل طے کرکے آگے بڑھیں گے؟ قدرتی ماحول کی بحالی میں کامیاب ہو جائینگے؟ دہشتگردی اور پولیو کو شکست دینگے؟ اپنی آبادی کو کنٹرول اور منظم کرنے میں کامیاب ہو جائینگے؟ اپنے بچوں کو کوڑا کرکٹ کے ڈھیروں‘ مستری خانوں اور قہوہ خانوں سے اٹھا کر سکول میں بٹھا دینگے؟ جس دھرتی میں غریب کا بچہ تعلیم سے محروم اور مزدوری کیلئے مجبور ہو اور جہاں پر ہر غریب بیروزگار کی فکر محض دو وقت کی روٹی کے گرد گھومتی ہو وہاں پر پیسہ دار لوگوں کی تنخواہوں؟ اور الاؤنسز میں ہر سال لاکھوں روپے کا اضافہ سماجی انصاف کے کونسے زمرے میں آتا ہے؟ کیا یہ پیسہ تعلیم پر خرچ نہیں ہو سکتا؟ اور پھر یہ پیسہ ایسے لوگوں پر نچھاور کیا جارہا ہے جنہیں نہ تو اس کی ضرورت ہے اور نہ ہی وہ جاب یا ملازمت کر رہے ہیں‘ میری خام خیالی تو یہ تھی کہ تعلیم پر کل قومی بجٹ کا کم از کم پانچ فیصد تو ضرور خرچ ہوگا مگر ثابت ہوا کہ خام خیالی تو خام خیالی ہی ہوتی ہے پشاور کی جامعات میں ایک وائس چانسلر نے بہترین منتظم کے طورپر بارہ سال گزارے موصوف اس دوران اعلیٰ حکومتی شخصیات اور اداروں سے مسلسل رابطے اور کوشش میں رہے کہ تعلیمی بجٹ کم از کم چار فیصد ہو جائے اس مہم میں موصوف نے ایک سلوگن بھی متعارف کروالیا تھا یعنی ”تعلیم کو چاردو‘ ملک کو سنوار دو“ لیکن جب کتبوں پر یہ سلوگن تحریر تھا اور یونیورسٹی میں جگہ جگہ آویزاں تھے انجینئر سید امتیاز حسین گیلانی کے جانے کے بعد آج وہ کتبے انجنیئرنگ یونیورسٹی کے سٹور اور گوداموں میں پڑے ہوئے نظر آرہے ہیں اور تعلیم تو کیا یونیورسٹی کی حالت کچھ اس قدردیدنی ہے کہ گزشتہ تین مہینے سے وائس چانسلر کی راہ تکتے تکتے تھک گئی ہے جبکہ مالی حالت کا کیا کہئے وہ تو اس قدر قابل رحم ہوگئی ہے کہ تنخواہ اور پنشن کیلئے حکومتی عدم پتہ گرانٹ کی بیساکھی پر کھڑی منتیں باندھ رہی ہے الغرض جب تک ہم اپنی چادر دیکھ کر پاؤں نہیں پھیلائینگے‘ جب تک شاہ خرچیوں یا بہ الفاظ دیگر غیر ترقیاتی اخراجات سے جان نہیں چھڑائینگے اور جب تک تعلیم ہماری اولین ترجیح  نہ ہو جائے تب تک یہ کہنا کہ ہم مستقبل میں ایک ترقی یافتہ خود کفیل اور خوشحال ملک کے طورپر دنیا کی اقوام کیساتھ کھڑا ہونے کے قابل ہو جائینگے محض ایک خواب و خیال ہوگا۔