تحریک انصاف کی خیبرپختونخوا حکومت نے 12 معاون خصوصی مقرر کرکے ماضی کے تمام ریکارڈ توڑ دئیے33رکنی کابینہ صوبائی خزانے پر بوجھ بن گئی ۔ آئین کی 18ویں ترمیم کے برعکس 12معاون خصوصی کی تقرری متنازعہ بن گئی ہے ۔آئینی ماہرین نے معاونین خصوصی کی تقرری کو آئین کی 18ویں ترمیم کی روح کے منافی قرار دیا ہے۔ خیبرپختو نخوا کابینہ کا حجم گیارہ فیصد سے بڑھ کر 23فیصد تک پہنچ چکا ہے جبکہ پنجاب کابینہ کا ممبران اسمبلی کے حساب سے حجم 5.6فیصد ہے اسی طرح سندھ کابینہ کا حجم 20فیصد کے قریب ہے وزیراعلیٰ کے مشیر برائے اطلاعات بیرسٹر محمد علی سیف نے خصوصی معاونین کا دفاع کرتے ہوئے کہا کہ نتظامی امور مؤثر طریقے سے چلانے کے لئے کابینہ میں توسیع ناگزیر تھی ، اس وقت موجودہ وزیراعلیٰ علی امین گنڈا پور کی قیادت میں خیبرپختونخوا حکومت کی کابینہ میں 15 وزراء، 5 مشیر اور 12 خصوصی معاونین شامل ہیں۔آئین کی 18ویں ترمیم کے آرٹیکل 130(6) کے مطابق، وفاقی کابینہ کا حجم پارلیمنٹ کے کل اراکین کا 11 فیصد ہوگا۔ صوبوں میں بھی کابینہ کی تعداد 15 اراکین یا 11 فیصد تک محدود ہوگی، جو بھی تعداد زیادہ ہو۔ وزیراعلیٰ بالکل وزیراعظم کی طرح، 5 سے زیادہ مشیر مقرر کرنے کے مجاز نہیں ہوں گے۔ اس کے علاوہ، خصوصی معاونین کی تقرری ایک متنازع موضوع بنی ہوئی ہے۔چاروں صوبائی حکومتوںکے تجزیہ کےدوران انکشاف ہوا ہے کہ خیبرپختونخوا کابینہ 12خصوصی معاونین کی تقرری کے ساتھ سرفہرست ہے جبکہ سندھ 10معاونین خصوصی کے ساتھ دوسرے نمبر پر ہے اسی طرح پنجاب میں تین معاون خصوصی تعینات ہیں جبکہ بلوچستان میں کوئی معاون خصوصی نہیں۔پنجاب اسمبلی میں ممبران کی تعداد 371ہے جبکہ پنجاب میں وزیراعلی مریم نواز کی قیادت میں پنجاب حکومت میں ایک سینئر وزیر ٗ16 وزراء اورتین معاون خصوصی شامل ہیں یوں کابینہ کی مجموعی تعداد 21کے قریب ہے ۔سندھ اسمبلی میں اراکین کی تعداد 168ہے جبکہ وزیرعلی مراد علی شاہ کی قیادت میں صوبائی کابینہ میں 18وزراء ٗ5معاون خصوصی اور 10معاون خصوصی شامل ہیں یوں کابینہ کی تعداد 34بنتی ہے البتہ سندھ کے وزیراعلی کے 8ترجمان بھی ہیں ۔اسی طرح بلوچستان اسمبلی میں ممبران کی تعداد 65ہے اور وزیراعلی میر سرفراز بگٹی کی قیادت میں صوبائی کابینہ میں13وزراء اورچار مشیر شامل ہیں یوں کابینہ کی تعداد 18ہے البتہ کوئی معاون خصوصی مقررنہیں کیا گیا ۔