اور اب پھر تالہ بندی


انجینئرنگ یونیورسٹی کے ملازمین نے تنگ آمدبجنگ آمد کے مصداق بالآخر کام کاج کو خیرباد کہتے ہوئے تالہ بندی شروع کردی‘ ان کا احتجاج پرزور اور نتیجہ خیز اس لئے ہوتا ہے کہ یہاںپر ٹیچنگ سٹاف کے علاوہ باقیماندہ تمام غیر تدریسی ملازمین کی ایک ہی یونائیٹڈ تنظیم ہے جس کے نام میں ” ویلفیئر“ کا لفظ بھی شامل ہے البتہ کرتا دھرتا اسے استعمال نہیں کررہے‘ ایسوسی ایشن کے روح رواں یا تاحیات صدر ارباب امیر خسرو نے اس دفعہ ایک اور کامیابی یہ حاصل کرلی کہ ٹیچرز ایسوسی ایشن نے بھی ایکا کرکے تدریسی عمل کو معطل کردیا ‘ویسے انجینئرنگ کے دفتری امور اور مالیات اور اسناد کی ادائیگی تو وائس چانسلر اور قائمقام یا پروو وائس چانسلر کی عدم موجودگی یعنی عدم تقرری کے سبب گزشتہ تین مہینے سے لٹکی ہوئی ہے‘ مطلب یونیورسٹی میں محض تنخواہوں اور دوسرے اخراجات کیلئے کام ہو رہا تھا یعنی اخبارات اور فرمز کی واجب الادا ادائیگیاں بلاجواز طور پر صرف اپنے اخراجات پورے کرنے کیلئے رکی ہوئی ہیں لیکن کفایت شعاری سے ہٹ کر اخراجات کے سبب سارا نزلہ دوسرے حلقوں پر گرا دیا جاتا ہے اسی طرح وائس چانسلر کی عدم موجودگی سے وہ گریجویٹ رل گئے ہیں جو انجینئرنگ جیسی مہنگی تعلیم حاصل کرکے اب ڈگری کے منتظر بیٹھے ہیں ‘تو بات انجینئرنگ کے مشترکہ احتجاج کی ہو رہی تھی جس کیلئے اس بار جائنٹ ایکشن کونسل یا جیک کا پلیٹ فارم بھی مہیا کیا گیا ہے اسی طرح اسلامیہ کالج کے کلاس تھری ملازمین کے کرتا دھرتا گزشتہ ہفتے سے قائمقام وائس چانسلر کے دفتر کے باہر ٹینٹ لگا کر بیٹھے ہیں اور کالجیٹ کے ٹیچرز نے16جنوری کی ڈیڈ لائن دیدی ہے لیکن ان کا مطالبہ مالیات سے جڑا ہوا نہیں بلکہ ترقی اور الاﺅنسز یا مراعات کے حصول کیلئے برسرپیکار ہیں انجینئرنگ کے ملازمین کو دسمبر کی تنخواہیں ان سطور کے لکھنے تک نہیں ملی تھیں جہاں تک اساتذہ کے ایکا کا تعلق ہے تو تنخواہ نہ ملنے پر احتجاج تو خیر ایک جائز فطری اور قانونی حق اور عمل ہے لیکن کیا اس میں برین ڈرین الاﺅنس بھی شامل ہے؟ شامل تو اس لئے ہوگا کہ انجینئرنگ کے ایک سینئر بلکہ کلیدی مالیاتی منتظم سے جب اس بارے میں دریافت کیاگیا تو موصوف کا کہنا تھا کہ یہ الاﺅنس تو یونیورسٹی کی تمام باڈیز یعنی فنانس اینڈ پلاننگ کمیٹی‘ سنڈیکیٹ اور سینٹ سے منظور شدہ ہے لہٰذا اب تو صرف یہ دعا اور التجا کی جاسکتی ہے کہ انجینئرنگ یونیورسٹی کو اتنے پیسے مل جائیں کہ اس سے برین ڈرین سمیت تمام الاﺅنسز تنخواہیں اور انتظامی اخراجات پورے ہوسکیں اور جب کچھ باقی رہ جائے تو پھر اخبارات اور فرمز کی ادائیگی بھی اپنی سہولت سے کریں مگر میرے اندازے کے مطابق ایسا بالکل بھی ممکن نہیں ہوگا ادھر پشاور یونیورسٹی میں اگست سے تنخواہوں کی تاخیر سے ملنے کا جو سلسلہ شروع ہے وہ ہیٹ ٹرک سے کہیں آگے نکل گیا ہے مطلب دسمبر کی تنخواہیں بھی ایک ہفتہ کی تاخیر سے ملیں ایسے میں جامعہ کیلئے50 کروڑ روپے گرانٹ کا جو اعلان حال ہی میں کیا گیا ہے بہتر نہیں بلکہ بہتر تر ہوگا کہ وہ یونیورسٹی کو مل جائے لیکن یہ بات وثوق سے نہیں کہی جاسکتی کہ یکمشت ملے گی یا اقساط ہیں؟ اور سب سے بڑھ کر یہ کہ ملے گی بھی یا نہیں؟ البتہ یونیورسٹی میں جن نئے اداروں کیلئے اس گرانٹ کا اعلان ہوا ہے یعنی میڈیکل کالج اور نرسنگ انسٹیٹیوٹ کا قیام تو قابل غور امر تو یہ ہے کہ مذکورہ گرانٹ سے تو ان اداروں کا قیام بھی شاید ممکن نہ ہو اور پھر وہاں پر تو ملازمین بھی ہونگے مطلب تنخواہوں مراعات اور دوسرے اخراجات کا بوجھ بھی ہوگا تو یونیورسٹی کے پاس تو موجودہ سٹاف کی تنخواہوں کیلئے بھی پیسے نہیں تو مزید سینکڑوں ملازمین کا کیا بنے گا؟۔