بہت انو کھی خبر ہے بہت سارے قارئین کو یقین نہیں آئیگا کہ ایسا بھی ہوا ہوگا خبر یہ ہے کہ سویڈن کی حکومت نے اپنے نظام تعلیم کو کمپیوٹر کے سپر د کر کے کتابوں کو ختم کرنے کے 15سال بعد اس تجربے کو نا کام قرار دیکر اپنا نظام دوبارہ کتابوں پر منتقل کیا ہے اور نئے سال کے بجٹ میں اس منصوبے کیلئے 104 ملین یورو کی خطیر رقم مختص کی ہے تجربے کی نا کا می کو دو نتا ئج سے ثابت کیا گیا ہے ایک نتیجہ یہ تھا کہ کتا بوں کے بغیر طلبہ کا خیال اصل مو ضوع پر مر تکز نہیں ہو تا دوسرا نتیجہ یہ تھا کہ توجہ اور خیا لات بھٹکنے سے سیکھنے کا عمل متا ثر ہوا‘ نیز طلبہ کے اندر پڑھنے اور لکھنے کی صلاحیت ختم ہوئی سویڈن نے 2009ء میں اپنا نظام تعلیم کتابوں سے ہٹا کر ڈیجیٹل لرننگ یعنی تعلیم بذریعہ کمپیو ٹر کی پا لیسی وضع کی تھی زندہ قومیں اپنی پا لیسیوں کے نتائج کا جا ئزہ لیتی رہتی ہیں جیسا کہ علا مہ اقبال نے کہادست قضا میں صورت شمشیر ہے وہ قوم جو ہر آن رکھتی ہے اپنے عمل کاحساب‘ سویڈن‘ ڈنمارک اور ناروے کا شمار یورپ کے ایسے ممالک میں ہوتا ہے جن کا سماجی شعبہ امریکہ‘ چین اور جا پان سے زیا دہ ترقی یافتہ ہے یہ تینوں ممالک سکینڈینیویا (Scandenavia) میں واقع ہیں جو شما لی یورپ کا مشہور علا قہ ہے‘ 2009ء میں سویڈن نے بہت سے مما لک کو
پیچھے چھوڑ کر اپنا تعلیمی نظام کتا بوں کی جگہ کمپیوٹر پر منتقل کر کے ڈیجیٹل لرننگ کا نہا یت کامیاب تجربہ شروع کیا تھا ابتدا میں ایسا معلوم ہوتا تھا کہ کتابوں کے بغیر تعلیمی عمل کا یہ تجر بہ دوسرے ملکوں کیلئے مثال بنے گا ترقی پذیر ملکوں میں بھی ایک طبقے کا خیال تھا کہ کتابوں کو بند کر کے کمپیوٹر کے ذریعے سیکھنے اور سکھا نے کا عمل جدید دور کے تقاضوں سے نئی نسل کو ہم آہنگ کریگا اور یہ اکیسویں صدی کی سب سے بڑی ضرورت ہے‘ اس کے مقابلے میں دوسرے مکتبہ فکر کا یہ کہنا تھا کہ کتاب کا کوئی نعم البدل نہیں کا غذ پر چھپی ہوئی کتاب کی جگہ کمپیو ٹر کا نظروں سے اوجھل علم نہیں لے سکے گا ان کی دلیل یہ تھی کہ نصا بی تعلیم میں طلبہ کے سیکھنے کا عمل اور اسکے نتائج (SLOs) جتنے بھی ہیں کتاب سے تعلق رکھتے ہیں کتاب نہ ہو تو طالبعلم اندھیرے میں ٹامک ٹوئیاں مار تا رہے گا‘ ہاتھ کچھ بھی نہیں آئے گا انکا کہنا یہ تھا کہ کمپیوٹر میں بیشک مصنو عی ذہانت (AI) کی طاقت ہے‘ گوگل کی مہا رتیں ہیں مگر یہ مہا رتیں اور طاقتیں
بسا اوقات ہمارا ساتھ نہیں دیتیں مثلاً آپ کسی کیساتھ تعزیت کا اظہار کرنے کیلئے انگریزی کا جملہ ”میں چاہتا ہوں“ (I want to) سے بات شروع کرینگے تو مصنو عی ذہا نت مبار ک باد کے الفاظ لائیگا کیونکہ میں چاہتا ہوں کے بعد مبارکباد بھی آسکتا ہے کئی اور الفاط بھی آسکتے ہیں یہا ں مصنو عی ذہانت کو ایک طرف رکھ کر آپ خود سے اظہار تعزیت کیلئے موزوں الفاظ کا انتخاب کرینگے‘ ورنہ آپ کا تعزیت نا مہ مذاق بن کر رہ جائیگا بالکل اسی طرح آپ نے گوگل میپ کو دیکھ کر گاڑی چلانی ہے آپ کے پا س مطلوبہ مقام کا پتہ ہے جو بڑی شاہراہ کے دائیں یا سڑک کے بائیں طرف گلی سے ہو کر چند سیڑھیاں چڑھنے یا اترنے کے بعد آتا ہے‘ گوگل میپ آپ کو سڑک پر پہنچا کر کہے گا کہ دو منٹ پیدل چلو‘ اب دو منٹ پیدل چل کر آگے جا نا ہے یا پیچھے؟ دائیں جا نا ہے یا بائیں گوگل میپ آپ کو نہیں بتائے گا یہ بات آپ موقع پر مو جو د کسی زندہ انسان سے پوچھیں گے تو معلوم ہو جائے گی گو یا کمپیو ٹر کی حدود بھی ہیں ایک حد پر جا کر وہ جواب دے دیتا ہے یہی بات 15سالوں کے تجربے کے بعد سویڈن کی حکومت کو معلوم ہوئی تو حکومت نے 4ارب روپے کے برابر بجٹ دیکر تعلیمی نظام کو واپس کتابوں کی طرف لانے کا فیصلہ کیا تجربے سے ثابت ہوا کہ کمپیوٹر طا لبعلم کے دھیان کو منتشر کرتا ہے پڑھنے اور لکھنے کی مہارتوں کو متا ثر کر تا ہے پس تعلیمی نظام کی بنیاد کتاب ہی ہے۔