ڈاکٹر شیر قیوم خان 

طب کی دنیا میں جدید میڈیکل سائنس کی ایجا دات نے انقلاب بر پا کیا تو طبیب اور حکیم کی جگہ ڈاکٹر نے لے لی ، نبض کی جگہ تھر ما میٹر آیا دوسرے بے شمار آلات آئے 1970ءکے عشرے تک چترال میں ایک ہی ڈاکٹر تما م بیما ریوں کا علا ج کرتا تھا ، پھر رفتہ رفتہ سپیشلسٹ ڈاکٹروں کا دور آیا بندے کی آنکھ کسی ایک ڈاکٹر کو ملی ، کان کسی اور کے حصے میں آئے پھیپھٹرے ایک ڈاکٹر نے سنبھا لے تو دل کسی اور کی جھولی میں گرا، جگر کسی اور کو ملا ، گردے کسی اور کو مل گئے ڈاکٹر یو نس بٹ نے لکھا ہے کہ ایک وقت آئے گا جب نا ک کے دائیں نتھنے کا ڈاکٹر الگ اور بائیں نتھنے کا الگ ہو گا یہ اُس وقت کی بات ہے جب پہاڑی علا قوں کے لو گ سپیشلسٹ ڈاکٹروں کا نا م نہیں جا نتے تھے اُس وقت چترال میں ڈاکٹر سر دار الملک ، ڈاکٹر فضل قیوم اور ڈاکٹر شیر قیوم جیسے بڑے ڈاکٹر ہر مرض کا علا ج تجویز کر تے تھے اور چھوٹے موٹے آپریشن بھی کر تے تھے ان میں ڈاکٹر شیر قیوم خان کو اس لحا ظ سے اہمیت حا صل ہے کہ انہوں نے غر بت ، پسماندگی اور بے سرو سامانی کے باوجود نا مسا عد حا لات کا مقا بلہ کر کے میڈیکل کی تعلیم حا صل کی ‘ضلع اپر چترال کے گاﺅں آوی میں واقع ان کے گھر سے مڈل سکول کے لئے قریبی گاﺅں بو نی جانا پڑتا تھا ، آپ 1952ءمیں سنگھے قبیلے کے متوسط خاندان میں شیر فطرت شاہ کے ہاں پیدا ہوئے آپ کے والد واجبی خواندہ تھے انہوں نے گھر پر قرآن
ی قاعدہ اور قرآن نا ظرہ پڑھا یا ساتھ ساتھ انگریزی حروف تہجی ایک سے سو تک اعداد کی تعلیم دی ، سٹیٹ پرائمری سکول آوی سے پانچویں جما عت پا س کر نے کے بعد 11سال کی عمر میں گھر سے 3کلو میٹر دور جا کر بونی میں داخلہ لیا اور روزانہ 6کلو میٹر پیدل سفر شروع کیا ، 1969ءمیں میٹرک کے امتحان میں سائنس مضا مین لیکر پا س کیا اور پوری ریا ست میں سائنس گروپ میں اول آگئے یہ اتنا مشکل کام تھا کہ آج بھی ما ضی کے اس دور کو یا د کر تے ہیں تو آنکھیں نم ہو جا تی ہیں دن سکول آتے جا تے گذر جا تا تھا گھر میں گاﺅں کے دوسرے گھروں کی طرح روشنی کے لئے کوئی لا لٹین یا دیا نہیں تھا دیا ہو تا تو تیل نہ ملتا آپ کی والدہ دیودار یا صنو بر یا بید کی خشک لکڑی سے پتلی پتلی لکڑیوں کے بنڈل بنا تی ، ان کو آگ لگا کر مشعل تیار کر تی ‘کوئی لکڑی جل کر ختم ہونے کے قریب ہوتی تو دوسری لکڑی اس بنڈل میں ڈال کر مشعل کی لو کو بجھنے نہ دیتی یوں آدھی رات تک ماں روشنی دیتی بیٹا کتاب پڑھتا ‘ماں سے اس مشقت کا سبب پوچھا جا تا تو کہہ دیتی میرے بیٹے کو ڈاکٹر بننے کا شوق ہے ، میٹرک کے بعد چترال میں سائنس کی تعلیم کا انتظام نہیں تھا بو نی کی معتبر شخصیت حیدر احمد حیدری نے کر اچی میں آغا خان ایجو کیشن سروس کو خط لکھ دیا اس خط کی وسا طت سے وظیفہ ملا ، ہا سٹل میں جگہ ملی کا لج میں داخلہ ہوا مگر سال پورا نہیں ہواتھا کہ چند اور معتبرات نے کوشش کر کے وظیفہ بند کرا دیا ، طالب علم نے ہا ر نہیں ما نی اپنی کو شش جا ری رکھی جلدی ہی وظیفہ بحال ہوا کر اچی سے ایف ایس سی میں اچھے نمبر لیکر پشاور آیا تو خیبر میڈیکل کا لج میں داخلہ مل گیا ، صو بائی حکومت کی طرف سے جا گیر فنڈ کے نا م سے سالا نہ وظا ئف کا سلسلہ چل نکلا اس طرح 1976ءمیں ایم بی بی ایس کی ڈگری لیکر تعلیم سے فارغ ہوئے ہسپتال میں رسمی ہاﺅس جا ب کے بعد صو بائی محکمہ صحت میں میڈیکل آفیسر مقرر ہوئے‘ ماں باپ کی دعائیں رنگ لے آئیں اور طالب علم کو محنت کا صلہ مل گیا ‘دوسال لیڈی ریڈنگ ہسپتال میں ڈیو ٹی دی ، 4سال مختلف ہسپتالوں میں ما مور رہے 24سال تحصیل ہیڈ کوار ٹر ہسپتا ل بو نی میں خد مات انجا م دیں اور 6سال ایگزیکٹیو ڈسٹرکٹ آفیسر ہیلتھ کی ذمہ داریاں نبھا نے کے بعد سروس سے سبکدوش ہوئے اپنے 34سالہ کیرئیر میں
 آپ نے عوام کی خد مت سرکاری ڈیوٹی کی مجبوری سمجھ کر نہیں کی بلکہ ذاتی شوق ، جنوں اور جذبے سے کام لیکر دکھی انسا نیت کے لئے مسیحا ئی کا فرض نبھا یا ‘جدید پیتھالوجی لیبارٹری اور دیگر سہو لیات کی غیر مو جو د گی میں دل ، جگر ، گردے اور آنتوں کی پیچیدہ بیماریوں کا دل جمعی سے علا ج کیا‘ آپ نے پگڈنڈیوں پر پیدل سفر کر کے دل کے مریضوں کو گھر پر معائنے کی سہو لیات دیں ، ہزاروں بار ایسا ہوا کہ آپ کا مریض شہر کے سپیشلسٹ کے پاس گیا تو پیتھا لو جی کی جدید لیبارٹری سے ٹیسٹ کروانے کے بعد ڈاکٹر شیر قیوم خان کے نسخے میں کسی ڈاکٹر نے کمی بیشی نہیں کی تعلیم کے میدان میں ڈاکٹر شیر قیوم خان کی کا میابی نے خاندان کے لئے اعلیٰ تعلیم کے دروازے کھول دئیے ‘آپ کے چھو ٹے بھا ئی عبد الغفار خان نے سول سروس میں شمو لیت اختیار کی ان کی اولاد بڑی یو نیو رسٹیوں میں زیر تعلیم ہے ، آپ کا بیٹا بشارت کا میاب ڈاکٹر ہے دوسرا بیٹا مزمل وفاقی محکمے میں سینیئر پوسٹ پر کام کر رہا ہے ‘تیسرا بیٹا یا سر آسٹریلیا میں ایگزیکٹیو پوسٹ پر فائز ہے اور ہوبارٹ (Hobart) میں رہتا ہے ‘چھوٹا بیٹا سلمان ایلیا ابھی زیر تعلیم ہے ہر محنتی ، ایماندار اور نیک نا م آفیسر کی طرح ڈاکٹر شیر قیوم خان بھی ریٹائر منٹ کے بعدجوانی کی طرح ہنس مکھ ، ہشاس بشاش اور پُر سکون زند گی کا لطف اٹھا ر ہے ہیں۔