وزیر اعظم شہباز شریف نے ملک کے سمندری شعبے کی مکمل بحالی کے ایک جامع منصوبے کی منظوری دے دی ہے، جس کا مقصد موجودہ 2610 ارب روپے کی آمدنی کو بڑھا کر 8000 سے 9000 ارب روپے تک لے جانا ہے۔
وفاقی اور صوبائی حکام کو واضح روڈ میپ دے دیا گیا ہے، جبکہ ملک کے سمندری شعبے کی بحالی کے منصوبے پر عملدرآمد یقینی بنانے کے لیے ایک اعلیٰ سطحی عملدرآمد کمیٹی پہلے ہی تشکیل دی جا چکی ہے۔
اس منصوبے میں بندرگاہوں کے انتظام، آمدنی میں اضافے، ڈیجیٹائزیشن، جہاز سازی، جہاز توڑنے کی صنعت، ماہی گیری اور آبی زراعت سمیت دیگر شعبوں پر خاص توجہ دی جائے گی۔
ایک سو بیس سے زائد اقدامات میں شامل اہم نکات میں پاکستان میری ٹائم اینڈ سی پورٹ اتھارٹی کا قیام، کراچی پورٹ، پورٹ قاسم اور گوادر پورٹ کے سی ای اوز کی تقرری، اور دیگر اہم منصوبے شامل ہیں، جو طے شدہ ڈیڈ لائنز کے اندر مکمل کیے جائیں گے، تاکہ سمندری شعبے کی تنظیم نو جلد از جلد ممکن ہو سکے۔
عملدرآمد کمیٹی کی سربراہی وزیر دفاع کریں گے اور اس میں قانون نافذ کرنے والے اداروں اور انٹیلی جنس ایجنسیوں کے اعلیٰ افسران شامل ہوں گے۔ یہ کمیٹی ہر پندرہ دن بعد اجلاس منعقد کرے گی تاکہ تمام منظور شدہ اقدامات پر عملدرآمد کی نگرانی کی جا سکے۔
وزیراعظم کی جانب سے گزشتہ ماہ منظور کیے گئے منصوبے کے تحت پاکستان میری ٹائم اینڈ سی پورٹ اتھارٹی کے قیام کے لیے 30 مارچ 2025 کی آخری تاریخ مقرر کی گئی ہے۔ اس کے تحت تجویز کیے گئے اہم اقدامات مندرجہ ذیل ہیں۔
کراچی پورٹ ٹرسٹ پورٹ قاسم اتھارٹی اور گوادر پورٹ اتھارٹی کے سی ای اوز کی تقرری، سی پیک کے تحت گوادر پورٹ کی ہنٹرلینڈ کنیکٹیویٹی، بریک واٹر کی تعمیر اور گوادر کو مکمل ڈیپ سی پورٹ بنانے کے دوسرے مرحلے کا آغاز، کسٹمز کے کردار میں اضافہ، کراچی پورٹ پر 24 گھنٹے فریٹ موومنٹ کی سہولت، جو اس وقت صرف سات گھنٹے کے لیے محدود ہے شامل ہیں۔
علاوہ ازیں پاکستان میں جہاز سازی کی فوری جانچ اور اس صنعت کو فروغ دینے کے لیے اقدامات جن میں پاکستان نیشنل شپنگ کارپوریشن کی تنظیم نو، نیشنل پورٹس ماسٹر پلان کی تجدید، بندرگاہوں کے ٹیرف کو یکساں معیار پر لانا، کنٹینرز کی کلیئرنس میں تاخیر کم کرنا، ٹرانس شپمنٹ آپریشنز میں بہتری، نئے ٹرمینلز کی تعمیر، تمام ٹرمینلز پر جدید آلات کی فراہمی، فاٹا/پاتا کی چھوٹ کے غلط استعمال کی روک تھام اور تمام بندرگاہوں کے تیسرے فریق سے آڈٹ کی تکمیل شامل ہیں۔
ہاربری چینلز کی ڈریجنگ، کراچی پورٹ ٹرسٹ کی اراضی کے تنازعات کا حل، روکے گئے کنٹینرز کی کلیئرنس، معائنہ کے علاقوں میں توسیع اور بندرگاہوں پر مناسب کارگو ہینڈلنگ آلات کی فراہمی، کسٹمز کی قیادت میں فسیلیٹیشن میکانزم کا قیام، کراچی ڈاک لیبر بورڈ کا خاتمہ، بندرگاہوں پر اسکینر کی سہولت کو آؤٹ سورس کرنا، کراچی پورٹ سے پپری ریلوے لنک کی بحالی، کراچی پورٹ کے باہر سڑکوں پر تجاوزات کا خاتمہ، پانچ سالہ ماہی گیری ترقیاتی منصوبے کا نفاذ، سندھ اور بلوچستان کے ساحلی علاقوں میں جھینگا فارمنگ کے کلسٹرز کا قیام، چینی سی فوڈ انڈسٹری کو پاکستان میں سرمایہ کاری کے لیے راغب کرنا شامل ہیں۔
ذرائع کے مطابق، پاکستان کے وسیع سمندری وسائل کے باوجود اس شعبے کی کارکردگی مایوس کن ہے، جس کی بنیادی وجہ مربوط پالیسی سازی اور طویل المدتی منصوبہ بندی کا فقدان ہے۔ تاہم یہ نیا منصوبہ اربوں ڈالر کی تجارتی آمدنی کے دروازے کھول سکتا ہے۔
ذرائع نے حیرت کا اظہار کیا کہ پاکستان کی سب سے بڑی بندرگاہ صرف سات گھنٹے کے لیے کام کرتی ہے، جو غیر معیاری بندرگاہی انتظام کا مظہر ہے۔کراچی پورٹ ٹرسٹ کے مالی مسائل پر بھی تشویش کا اظہار کیا گیا، کیونکہ اس کی آمدنی کا 80 فیصد حصہ تنخواہوں اور پنشنز پر خرچ ہو رہا ہے، جس کی وجہ ناقص انتظام، عدم ڈیجیٹائزیشن اور اضافی عملہ ہے۔