سال کی تیسری انسداد پولیو مہم کا افتتاح، ساڑھے 4 کروڑ بچوں کو قطرے پلانے کا ہدف مقرر

پاکستان پولیو پروگرام نے اتوار کو اسلام آباد میں نیشنل ایمرجنسی آپریشنز سینٹر (این ای او سی) میں رواں سال کی تیسری انسداد پولیو مہم کا آغاز کر دیا۔

پاکستان دنیا کے ان دو آخری ممالک میں شامل ہے جہاں اب بھی پولیو وائرس مقامی سطح پر موجود ہے، واضح رہے کہ پولیو سے متاثرہ دوسرا ملک افغانستان ہے، اس مرض کے خاتمے کی عالمی کوششوں کے باوجود سیکیورٹی مسائل، ویکسین سے متعلق ہچکچاہٹ اور غلط معلومات جیسے مسائل پیش رفت میں رکاوٹ بنے ہوئے ہیں۔

اسی ہفتے خیبر پختونخوا کے ضلع لکی مروت اور بنوں سے پولیو کے دو نئے کیسز سامنے آئے، جس سے رواں سال پولیو کیسز کی کل تعداد 10 ہو گئی ہے۔

نیشنل ایمرجنسی آپریشنز سینٹر سے جاری ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ پاکستان پولیو پروگرام نے آج اسلام آباد میں نیشنل ایمرجنسی آپریشنز سینٹر (این ای او سی) میں سال کی تیسری انسسداد پولیو مہم کا آغاز کیا۔

محکمہ صحت کے حکام نے والدین اور سرپرستوں سے اپیل کی ہے کہ وہ 5 سال سے کم عمر تمام بچوں کو پولیو کے قطرے ضرور پلوائیں، کیونکہ اس مہم کا مقصد ملک بھر میں لاکھوں بچوں تک پہنچنا ہے تاکہ اس موذی مرض کا ہمیشہ کے لیے خاتمہ ممکن بنایا جا سکے۔

وزیرِ اعظم کی فوکل پرسن برائے انسداد پولیو عائشہ رضا فاروق نے مہم کا باقاعدہ افتتاح کیا، ان کے ہمراہ پولیو پروگرام کے کور گروپ کے ارکان اور شراکت دار تنظیموں کے نمائندے بھی موجود تھے۔

بیان میں مزید کہا گیا کہ ’عائشہ رضا فاروق نے افتتاح کی مناسبت سے 5 سال سے کم عمر بچوں کو پولیو سے بچاؤ اور وٹامن اے کے قطرے پلائے، جو اس مہلک مرض کے خاتمے کے لیے حکومت کے پختہ عزم کی علامت ہے‘۔

ایک ہفتہ جاری رہنے والی یہ مہم 26 مئی سے شروع ہوگی، جس کا ہدف 5 سال سے کم عمر 4 کروڑ 50 لاکھ سے زائد بچوں کو ویکسین فراہم کرنا ہے۔ بیان میں کہا گیا ہے کہ ’یہ مہم پاکستان میں پولیو وائرس کی منتقلی کو روکنے اور 2025 کے اختتام تک پولیو کے خاتمے کے لیے ایک اہم اقدام ہے‘۔

بیان کے مطابق، عائشہ رضا فاروق نے کہا کہ ’پولیو کا خاتمہ صرف ایک صحت کا ہدف نہیں بلکہ قومی ذمہ داری اور ہمارے ملک کے لیے باعثِ فخر ہے‘۔

انہوں نے مزید کہاکہ ’سال 2025 کی یہ تیسری مہم ہمارے 2-4-6 روڈ میپ میں ایک فیصلہ کن مرحلہ ہے، ستمبر 2024 سے مئی 2025 تک یہ مسلسل مہمات ہمارا سب سے مؤثر موقع ہیں تاکہ قوتِ مدافعت کے خلا کو پُر کیا جائے اور وائرس کی منتقلی کے موسم کے آغاز سے قبل اسے روکا جائے‘۔

عائشہ رضا فاروق نے ان علاقوں میں موجودہ چیلنجز کو تسلیم کیا جہاں وائرس موجود ہے جیسے کراچی، جنوبی خیبر پختونخوا اور کوئٹہ بلاک، لیکن اس کے ساتھ ہی ان علاقوں میں پیش رفت کو بھی اُمید افزا قرار دیا جہاں پہلے ویکسینیشن کی رسائی محدود تھی۔

انہوں نے مہم کو ممکن بنانے والے 4 لاکھ فرنٹ لائن ورکرز، جن میں 2 لاکھ 25 ہزار خواتین ویکسینیٹرز بھی شامل ہیں، کی خدمات کو خراجِ تحسین پیش کیا اور سویلین و عسکری قانون نافذ کرنے والے اداروں کے کردار کو بھی سراہا۔

بیان میں بتایا گیا ہے کہ اگرچہ بڑی کامیابیاں حاصل ہوئی ہیں، لیکن وائلڈ پولیو وائرس اب بھی خطرہ بنا ہوا ہے، پاکستان میں اس سال اب تک پولیو کے 10 کیسز رپورٹ ہو چکے ہیں، ماحولیاتی نگرانی کے دوران ملک بھر کے 68 اضلاع میں 127 مقامات سے حاصل کردہ گندے پانی کے 272 نمونوں میں وائرس کی موجودگی کی تصدیق ہوئی ہے، جو اس کے مسلسل پھیلاؤ کی علامت ہے۔

اس موقع پر پاکستان میں یونیسیف کے نمائندے عبداللہ فاضل نے پروگرام کی سمت پر اعتماد کا اظہار کیا، اپنی مدتِ تعیناتی کے اختتام پر انہوں نے قومی قیادت اور عائشہ رضا فاروق کی انتھک کاوشوں کو سراہا۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان تاریخ رقم کرنے کے قریب ہے، سیاسی عزم، عوامی شراکت اور تمام شراکت داروں کے مربوط اقدامات کے ساتھ، میں سمجھتا ہوں کہ پاکستان جلد پولیو سے پاک ملک بن سکتا ہے۔

بیان کے اختتام میں کہا گیا ہے کہ ’عوام سے پرزور اپیل کی جاتی ہے کہ وہ ویکسینیشن ٹیموں سے تعاون کریں اور اگر کوئی بچہ پولیو سے محروم رہ جائے تو صحت تحفظ ہیلپ لائن 1166 یا واٹس ایپ کے ذریعے اطلاع دیں‘۔

پولیو ایک ایسا مرض ہے جو بچوں کو معذور کر دیتا ہے اور اس کا کوئی علاج موجود نہیں، صرف پولیو کے کئی مرتبہ دیے گئے قطرے اور 5 سال سے کم عمر بچوں کی مکمل ویکسینیشن ہی انہیں اس مرض سے تحفظ فراہم کر سکتی ہے۔

وفاقی وزیرِ صحت سید مصطفیٰ کمال نے رواں ہفتے گیٹس فاؤنڈیشن کے صدر برائے عالمی ترقی ڈاکٹر کرس ایلیاس سے ملاقات میں کہا تھا کہ ’پاکستان نے 2025 کے اختتام تک پولیو کے مکمل خاتمے کا عزم کر رکھا ہے‘۔

انہوں نے حالیہ کامیابیوں کو ویکسینیشن مہمات اور مؤثر عوامی رسائی کا نتیجہ قرار دیا اور والدین کی ویکسین سے ہچکچاہٹ میں واضح کمی کا بھی ذکر کیا۔

مصطفیٰ کمال نے کہا کہ ’پولیو کے خلاف جنگ میں تمام شراکت داروں، خصوصاً قانون نافذ کرنے والے اداروں نے عظیم قربانیاں دی ہیں، یہ مشن اُس وقت تک جاری رہے گا جب تک ہم پولیو وائرس کا مکمل خاتمہ نہ کر لیں۔