اداکار شاہ رخ خان نے یونیورسٹی کانووکیشن سے خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ میرے والد بہت غریب تھے‘اتنے غریب کہ میری سالگرہ پر مجھے کوئی تحفہ بھی نہیں دے سکتے تھے پھر بھی انہوں نے مجھے تین ایسے تحفے دےئے جو ان کی جوانی کے اچھے دنوں کی یادگار تھے مگر میرے لئے کسی کام کے نہیں تھے‘ ان تحفوں میںہر ایک میں اتنا سبق تھا جو مجھے یل( YEL)یونیورسٹی میں ملانہ ایڈنبرا میںملا اور یہ بات میں نے دونوں یونیورسٹیوں میں دہرائی میرے سامعین نے مجھے سراہا‘والد کی طرف سے ملنے والا پہلا تحفہ شطرنج تھا‘شطرنج کی یہ بساط اور اس کے مہرے بہت پرانے اور گھسے ہوئے تھے تحفہ میرے ہاتھ میں دیتے ہوئے میرے والد کی آنکھوں میں ناداری اور بے بسی کے آنسو تھے ان کے ہاتھ بھی لرزرہے تھے تاہم وہ کچھ کہنا چاہتے تھے ‘میں نے تحفے سے زیادہ ان کی باتوں پر توجہ دی‘ والدنے کہا مجھے افسوس ہے میں تمہےں تیری سالگرہ پر کوئی نیا اور قیمتی تحفہ نہیں دے سکا۔شطرنج کی یہ بساط رکھ لو۔اس کے مہرے تمہیں زندگی بھر یاد دلاتے رہیں گے کہ زندگی ایک کھیل ہے اس کھیل کا کوئی مہرہ معمولی نہیں کوئی مہرہ بیکار نہیں اسکا پیادہ اتنا ہی کارآمد ہے جتنا اس کا ہاتھی یا توپ خانہ‘ کسی بھی مہرے کو معمولی مت سمجھو بیکار مت سمجھو کمزور مت سمجھو‘ یہ بھی یاد رکھو زندگی کی دوڑ میں کامیابی صرف آگے بڑھنے کانام نہیں پیچھے ہٹنابھی کامیابی کا ایک زینہ ہوا کرتا ہے‘پیچھے ہٹنے والا جب آگے بڑھتا ہے تو سب سے آگے ہوتا ہے‘ میرے والد کہتے تھے مجھے نہیں معلوم کہ زندگی کا کھیل شطرنج سے لیا گیا ہے۔
یا شطرنج کی بساط ہماری زندگی سے لی گئی ہے دونوں صورتوں میں دونوںایک ہی سکے کے دو رخ ہیں‘ گویا ایک دوسرے کےلئے آئینے کاکام دیتے ہیں یہ پھٹا پرانا تحفہ رکھ لو شاید زندگی کے کسی موڑ پر یہ تمہیں کوئی کارآمد سبق دے سکے اور میں نے اس کو زندگی کے ہر موڑ پرکارساز وکارآمد پایا۔قدم قدم اس سے سبق لیا ۔دوسرا تحفہ میرے والد کا پرانا ٹائپ رائیٹر تھا س پر زمانے کی اتنی گرد پڑچکی تھی کہ اس کا کوئی بٹن درست طریقے سے پہچانا نہیںجاتا تھا ایک اور سالگرہ پر یہ تحفہ مجھے تھماتے ہوئے میرے والد نے کہا میں جانتا ہوں یہ تمہارے کسی کام کا نہیں ہے پھر بھی میری استطاعت میں اس سے اچھا تحفہ کوئی نہیں۔اس کی ایک خرابی ہے‘خرابی یہ ہے کہ کمپیوٹر کی طرح یہ اپنی غلطی یا تمہاری غلطی کو مٹانے سے قاصر ہے‘ اس میں deleteکا بٹن نہیں ہے۔پورا ورق ٹائپ کرنے کے بعد اگر ایک حرف غلط ہوا تو اس حرف کےلئے ورق کو دوبارہ ٹائپ کرنا پڑتا ہے ‘اس لئے ٹائپ رائیٹراستعمال کرنےوالی انگلیاں ہروقت محتاط ہوتی ہیں‘ ایک حرف غلط ہوا تو نئے سرے سے کام کرنا پڑے گا زندگی کے سفر میں قدم ایک حرف ہے۔
بالکل ٹائپ رائیٹر کے حرف کی مانند ہے‘ اگر ایک قدم تم نے غلط رکھاتوجان لو کہ سفر نئے سرے سے شروع کرنا پڑے گا ‘یاد رکھو زندگی کے سفر میں کھائیاں ہیں‘خندقیں ہیں جو تمہیں نئے سرے سے سفر شروع کرنے کی مہلت بھی نہیں دیں گی‘ اس سفر میںdeleteکا کوئی بٹن نہیں ہے جس طرح ٹائپ رائیٹر پر محتاط رہنا پڑتا ہے اسی طرح زندگی کے سفر میں پھونک پھونک کر قدم رکھنا پڑتا ہے۔ تیسرا تحفہ جو میرے باپ نے مجھے دیا وہ ان کا پرانا کیمرہ تھا اس میں کیمرہ والی کوئی بات نہیں رہی تھی یہ تصویر لے سکتا تھا نہ تصویردے سکتا تھا البتہ عینک اور چشمے کاکام دیتا تھا اس میں تصویرنظر آتی تھی۔اپنا پرانا کیمرہ مجھے جنم دن پر تحفہ دیتے ہوئے میرے والد نے کہا بیٹا میں جانتا ہوں تم ڈیجیٹل کیمرہ استعمال کروگے یہ تمہارے کسی کام کا نہیں پھر بھی اس میں ایک خوبی ہے یہ تصویر بناتا ہے شکل‘صورت اور ہیئت کو تخلیقی مرحلے سے گزار کر تمہیں دکھاتا ہے‘ زندگی بالکل اس کیمرے کی تصویر سے ملتی جلتی چیز ہے تم اپنی تخلیق سے خود لطف حاصل کروکسی اور کی طرف سے داد‘بیداد یا تحسین کی فکر اور پروا نہ کرو‘ تم اپنی تصویر سے خود لطف اندوز ہونے کی عادت ڈالوگے توتمہاری تخلیقی صلاحیت روز بروز نکھرتی جائے گی‘یہاں تک کہ دنیا خودبخود تمہاری طرف توجہ دینے لگے گی اور تم دنیا والوں کی ضرورت بن جاﺅگے‘ میرے والد کے ان معمولی تحفوں نے میری زندگی میں غیر معمولی کردار ادا کیا۔
دوسالگرائےں ایسی بھی آئےں جب میرے والد نے مجھے کوئی تحفہ نہیں دیاکیونکہ اس کی پرانی چیزوں کا سٹاک ختم ہوچکا تھا‘ایک سالگرہ پر وہ خالی ہاتھ آئے اور میرے کندھے پرہاتھ رکھ کر مسکرانے لگے‘ مسکراتے ہوئے اس نے کہا بیٹا یاد رکھو زندگی میں خوش رہنے سے بڑی کوئی دولت نہیں جو شخص لطیفے سناتا ہے وہ بھی اندر سے دکھی ہوتا ہے اپنے دکھوں کو چھپاتاہے دوسروں کو ہنساتا ہے‘ حس مزاح سب سے بڑی دولت ہے‘ سےنس آف ہیومر سے کام لوگے تو دنیا کے سارے دکھ دور ہوجائیں گے‘حس مزاح انسان کی عظمت کو چار چاند لگانے کےلئے کافی ہے بیٹا سکول کے اس استاد کی قدر زیادہ کرو جو تمہارے ساتھ تُرشی اور سختی کا برتاﺅ کرتا ہے کیونکہ وہ تمہارا ہمدرد ہے‘ زندگی میں جس قدر آگے بڑھو گے وہ تمہیں اتناہی یاد آئے گا۔ہاں بیٹا لوگوں کے ساتھ نرمی سے پیش آﺅ ان کو عزت دو‘سب کی عزت کرو چاہے وہ تمہارے ماتحت ہی کیوں نہ ہوں‘کسی یونیورسٹی کے کانووکیشن میں فلمسٹار شاہ رخ خان کی یہ تقریر یادگار قراردی جاسکتی ہے انہوںنے جو تقریر کی وہ کسی بھی چانسلر یا پروچانسلر یا وی آئی پی شخصیت کی تقریر سے بڑھ کرتھی۔ غرےب والد کی طرف سے ملنے والے تحائف ہماری نئی نسل کےلئے مشعل راہ کی حیثیت رکھتے ہیں۔