قلم چھوڑ رویہ

 خبر آئی ہے کہ خیبر پختونخوا کے رواں مالی سال کا ترقیاتی بجٹ 41 فیصدخرچ ہوا‘59فیصد خرچ نہ ہوسکا۔ صوبائی حکومت نے اس حوالے سے رپورٹ کی سختی سے تردید بھی کردی ہے ‘یہ بجٹ شہری اور دیہی علاقوں میں بنیادی ڈھانچے یعنی انفراسٹرکچر کے منصوبوں کےلئے مختص کیا گیا تھا‘خبر کے بیک اپ میں رپورٹر نے اضافہ کیا ہے کہ بجٹ کا50فیصد سے کم خرچ ہونے کا یہ ساتواں سال ہے‘اسی رجحان کی وجہ سے صوبے کے اندر غربت کی شرح میں اضافہ ہوا ہے‘2013ءمیںغربت کی شرح 38فیصد تھی ‘ 2020ءمیں اس کی شرح 63فیصد ہوگئی ہے۔ تعلیم‘ صحت‘ مواصلات‘ آبپاشی اور آبنوشی کے منصوبے بھی متاثر ہوئے ہیں‘خبر میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ وزیراعلیٰ محمود خان نے صورتحال کا سخت نوٹس لے لیا ہے اور حکام کو ہدایت کی ہے کہ آئندہ سال کا ترقیاتی بجٹ100فیصد خرچ ہونا چاہئے‘حکام کا یہ بھی کہنا ہے کہ ہمارے صوبے کا بڑا حصہ پہاڑی علاقوں پر مشتمل ہے جہاں سال کے چھ مہینے کوئی ترقیاتی کام نہیں ہوسکتا ‘یہ بھی کہا جارہا ہے کہ ضم اضلاع میں نئے دفاتر کے قیام اور افسروں کی تقرری میں وقت لگ گیا‘حکام اپنے کام کی ایک سو ایک توجیہات پیش کرتے ہیں مگر سچی بات یہ ہے کہ انگریزی محاورے کی روسے حکام کے اوپر ڈیماکلز کی تلوار لٹک رہی ہے جس شخص کے اوپر ڈیماکز کی تلوار لٹک رہی تھی وہ اس خوف کا شکار تھا کہ تلوار اب گرے گی اور میری جان لے لے گی۔اس کے مقابلے میں اےک داناشخص کا واقعہ بھی مشہور ہے‘۔

 بادشاہ نے اعلان کیا کہ میں اس شخص کو انعام دونگا جو میرے دربار میں بھیڑ کا بچہ لائے گا ایک سال بعد اس حالت میں واپس لے جائے گا کہ اس کا وزن رتی ماشہ برابر زیادہ نہ ہوگا اور اس کا قد ایک انچ کے برابر نہیں بڑھے گا‘داناشخص نے چیلنج قبول کیا‘ بھیڑ کے بچے کو ایک ستون سے باندھ کر اس کے سامنے چارہ اور پانی رکھ دیا دوسرے ستون سے خونخوار بھیڑیا بندھا ہوا تھا‘اس کے سامنے گوشت کےساتھ پانی رکھا جاتا تھا وہ پانی پیتا تھا اور گوشت بھنبھوڑ کے کھاتا تھا۔بھیڑ کا بچہ ڈر کے مارے دن بھر ایک آدھ تنکاچارہ اٹھاتا‘ ایک آدھ گھونٹ پانی پیتا‘ اس طرح زندہ رہا مگراس کی پرورش رک گئی ‘ قد میں اضافہ ہوا نہ وزن بڑھا۔ سال بعد اسی حالت میں اسے بادشاہ کی خدمت میں پیش کیا گیا‘ بادشاہ نے پوچھا یہ کیسے ممکن ہوا تو دانا شخص نے پوری حکمت عملی بیان کی۔

 اسے انعام واکرام سے نوازا گیا‘حقیقت یہ ہے کہ گذشتہ سات سال سے سرکاری حکام کے اوپر ڈیماکلز کی تلوار لٹک رہی ہے یا وہ دانا شخص کے گھر میں ستون سے باندھے ہوئے بھیڑکے بچے کی طرح سانس لے رہے ہیں‘اس لئے ترقی کا پہیہ رک گیا ہے‘یہ قلم چھوڑ ہڑتال کی غیراعلانیہ صورتحال ہے اور اس کا ادراک صحافیوں سے ججوں تک سب کو ہے۔سیاستدان جب مائیک پرآتے ہیں تو کہتے ہیں کہ بیوروکریسی تعاون نہیں کرتی قدم قدم پر روڑے اٹکاتی ہے‘ایک بڑے ضلع میں بڑے محکمے کا افسر مسلسل کئی سال تک نان سےلری بجٹ خرچ کرنے سے کتراتا رہا‘ مالی سال کے آخری مہینے پورا بجٹ واپس کردیتا تھا جس کو دفتری زبان میں لیپس کہتے ہیں ‘کسی واقف کار نے ایک دن پوچھا سر! یہ کیا ماجرا ہے؟اس نے ایک جملے میں جواب دیا ’آڈٹ سے بچنے کا یہ واحد راستہ ہے‘بیسویں صدی کے نصف آخر تک دنیا کے300ملکوں پر نوآبادیاتی طاقتیںحکومت کرتی تھیں سب سے زیادہ نوآبادیات برطانیہ کی تھیں اس کے بعد فرانس‘ جاپان‘ پرتگال‘ جرمنی‘ روس‘ ترکی‘چین اور دیگر طاقتوں کی نوآبادیات تھیں۔

افریقہ اور ایشیا میں نوآبادیات کے حجم کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ پاکستان‘بھارت اور بنگلہ دیش ایک ہی نو آبادی ملک کے حصے تھے۔نوآبادیاتی طاقتوں نے ایسے ملکوں پر مضبوط بیوروکریسی کے ذریعے حکومت کی‘ان طاقتوں کا طریقہ کار یہ تھاکہ بیوروکریسی کو وسیع اختیارات دیکر حکومت کرنے دو اور سالانہ محاصل کے حصول تک تاج برطانیہ کو محدود رکھو‘ آج بھی بعض ممالک نے بیوروکریسی کو مضبوط رکھا ہوا ہے ان کی طاقت اور ترقی کا راز مضبوط بیوروکریسی میں ہے۔تاج برطانیہ اور بیوروکریسی میں اعتماد کا رشتہ ہوتا تھا اگرچہ وائسرائے کی حیثیت برٹش کراﺅن کے نمائندے کی ہوا کرتی تھی‘ تاہم اس کے اقدامات بیوروکریسی کے تابع ہوا کرتے تھے‘ وہ میٹنگ اور مشورے کے ذریعے بیوروکریسی کااعتماد حاصل کرتا تھا‘ مغلیہ سلطنت میں راجہ ٹوڈرمل‘بیرم خان اور ابوالفضل کانام اسلئے زندہ ہے کہ وہ مغل اعظم کی بیوروکریسی کے ستون تھے‘عباسی خلافت میں نظام الملک طوسی کا طوطی بولتا تھا‘ امیرالمومنین حضرت عمر فاروقؓ نے بیوروکریسی کی بنیاد رکھی تو زید بن ثابت ؓ ‘عبداللہ بن ارقمؓ‘عثمان بن احنف ؓ اور حذیفہ بن الیمانؓ کو اعتماد کےساتھ وسیع اختیارات دیئے‘ آج بھی اگر حکومت چاہتی ہے کہ ترقیاتی بجٹ عوامی مفادکے منصوبوں پر خرچ ہو‘سرمائے کی گردش سے غربت کی شرح میں ہرسال کمی آئے اور صوبے میں خوشحالی آئے تو اس کو بیوروکریسی پر اعتماد کرکے افسروں کے اوپر سے ڈیماکلز کی تلوار کو ہٹانا ہوگا۔افسروں کو داناشخص کے ستون سے بندھا ہوا بھیڑ کابچہ بننے سے بچاناہوگا۔تب کہیں جاکر پہلی سہ ماہی میں ترقیاتی بجٹ کا ایک چوتھائی اور دوسری سہ ماہی میں 50فیصد خرچ ہوگا۔آخری ششماہی میں بقیہ 50فیصد خرچ ہوگا۔سماجی نقشے پراس کے مثبت اثرات نظر آئیں گے اور حکومت کی کارکردگی سب کو نظر آئے گی یہی کامیابی کی کلید ہے۔