کوروناکے ساتھ گزارہ

 زبردست اور دبنگ قسم کی خبر آئی ہے‘ برادر اسلامی ملک انڈونیشیا کے وزیر قانون ‘قومی سلامتی اور سیاسی امور محمد محفوظ نے دنیا کو خبردار کیا ہے کہ کورونا کہیں جانےوالی نہیں اس وباءکےساتھ ایسے گزارہ کرنا ہے جس طرح تنگی ‘ترشی اور تلخی کے باوجود آدمی اپنی بیوی کیساتھ عمرگزارتا ہے‘گویا ان کا اشارہ روئے سخن حضرات کی طرف ہے خواتین کی طرف نہیں روئے سخن ’اسی‘کی طرف ہو تو روسیاہ اس کو آپ تنبیہ یا خبرداری کی جگہ اطلاع اور اعلان بھی کہہ سکتے ہیں‘دور کی کوڑی لانے والے یہ بھی کہہ سکتے ہیں کہ انڈونیشی کابینہ کے وزیر نے اپنے گھر کی خبردی ہے کہ ان کے ہاں ایک وباءکئی سالوں سے بیٹھی ہوئی ہے ‘و ہ گزارہ کر رہے ہےں گویا ان کو وبائی صورت میں کورونا آنے سے پہلے اس گھریلو وباءکا سامنا تھا اب اچھا ہوا پورا عالم اسلام ان کے دکھ درد میں شریک ہوا ہے بلکہ سچ پو چھیں تو پوری انسانیت کو اسی دکھ درد کا سامنا ہے جس کے بارے میں فیض نے راہ فرار اختیار کرتے ہوئے کہا تھا ”اور بھی غم ہیں زما نے میں محبت کے سوا “ میاں بیوی کے درمیان ترشی اور تلخی کا مرحلہ آجائے تو بسا اوقات بول چال بند ہونے کی نو بت بھی آتی ہوگی ایسے ہی کسی وقت کا ایک لطیفہ مشہور ہے میاں بیوی کے درمیان بول چال بند تھی دونوں ضرورت کی باتیں کاغذ پر لکھ کہ میز پر رکھ دیتے تھے ایک رات سونے سے پہلے خاوند نے پرچی پر لکھ دیا صبح سویرے نکلنا ہے مجھے 3بجے جگا دینا ‘اگلی صبح آنکھ کھلی تو 6 بج چکے تھے ‘خاوند کو تاﺅ آگیا اس نے تاﺅ کھا کر میز پر پڑی ہوئی پرچی کی طرف دیکھا تو اس پر لکھا تھا ”3بج چکے ہیں۔

 اٹھ جاﺅ‘تمہیں سویرے نکلنا ہے “بات غلط بھی نہیں تھی مگر درست بھی نہیں تھی‘ بیوی نے بول چال میں واپسی کا زریں مو قع ضائع کردیا تھا‘ کورونا کےساتھ بھی ہماری اس طرح کی ترشی اور تلخی ہو سکتی ہے اور بات جدائی تک طول پکڑ سکتی ہے‘ انڈونیشیا اور پاکستان کی ثقافتی زندگیوں میں شاید فرق ہوگا ہمارے دوست محمد محفوظ نے بیوی کے روٹھ کر میکے جانے اور ساس کےساتھ مل کر محاذ بنانے کا ذکر نہیں کیا ورنہ اس طرح کی صورتحال بھی پیش آسکتی ہے کورونا نے اگر روٹھ کر میکے جانے کا فیصلہ کر ہی لیا تو کہا ں جائے گی ؟ ہم چین کو اس کا مائیکہ قرار دیتے ہیں مگر چین نے امریکہ پر الزام لگا یا ہے کہ کورونا کا وائرس امریکہ نے لیبارٹری میں بنایا اور فوجی سازوسامان کےساتھ چین منتقل کیا‘ یہ بھی خدشہ ہے کہ امریکی بزنس ٹائیکون بل گیٹس نے بنایا اور چین منتقل کر دیا‘ بل گیٹس کمپیوٹر ٹیکنالوجی میں وائرس اور اےنٹی وائر س کے کاروبار میں شہرت رکھتا ہے‘ مائیکرو سافٹ کی پوری بادشاہت اس پر قائم ہے اگرکووڈ19-کا مائیکہ چین ہی ٹھہرا تو ہماری ساس کوئی شی چن پھو نامی خاتون ہو گی اور اگر کورونا وائرس کا مائیکہ امریکہ ٹھہرگیا تو ہماری ساس یقینا ملینڈا گیٹس ہوں گی‘اس صورت میں ہمارے درمیان پھر تہذیبوں کے ٹکراﺅ کا خد شہ پیدا ہوگا‘ برصغیر کی سماجی روایات میں ساس کو جو مقام دیا جاتا ہے چین اور امریکہ میں ساس کا مقام اس سے قدرے مختلف ہوگا ہمارے ہاں تو مبارک صدیقی کا یہ قطعہ خا صا مشہور ہے ۔
کرکے اغواءباس کی ساس کو
دی ہے دھمکی اغوا کاروں نے باس کو
اگر نہ پہنچایا تو نے روپے 5لاکھ
چھوڑدیں گے ہم تمہاری ساس کو

تفنن برطرف ‘اگر خدانخواستہ کورونا کی وباءبھی ترش اور تلخ تعلقات والی بیوی کی طرح گلے پڑگئی تو ہماری معاشرتی زندگی کے اطوار ہی بدل جائیں گے مثلاً کسی سہانی صبح کو معلوم ہوا کہ کورونا روٹھ کر میکے چلی گئی ہے تو ہمسائے مٹھائی کے ٹوکرے اٹھا کر مبارک باد دینے کےلئے آئیں گے‘ہماری دعا ہوگی کہ یہ وباءاس طرف روٹھی رہے اورکبھی میکے سے واپس نہ آئے اس طرح کورونا کی وباءنے اگر خلع کی درخواست دائر کی تو ہم دو قدم آگے بڑھ کر اس پر دستخط کریں گے کہ ”ایمان بچ گیا میرے مو لا نے خیرکی “ اگر سسرال چین میں ہو تو اپنی ساس شی چن پھو کے نا م خط یا ای میل بھیج کر ان سے استدعا کریں گے کہ پیاری کورونا کو روکے رکھو دوبارہ اس طرف آنے نہ دو تم خواہ مخواہ دکھی ہو جاﺅگی‘ ویسے بھی چین اور پاکستان کی دوستی سمندروں سے گہری اور ہمالیہ کی چوٹیوں سے زیادہ بلند ہے ہم دور دور سے اپنی محبت کا اظہار کرتے رہیں گے اور خدانخواستہ میڈم کورونا کا مائیکہ امریکہ میں نکل آیا تو امریکہ میں مقیم اپنی ساس مادام ملینڈا کو فیس بک یا ٹوئیٹر کے ذریعے بتا دیں گے کہ بیٹی میکے میں رہے تو سکھی رہتی ہے میڈم کورونا کو دوبارہ پا کستان نہ بھیجو اس نے اپنے سابقہ دورہ پاکستان میں ہمیں جو محبت دی ہے ہم اس کے مقروض ہیں ‘سچ پو چھئے تو کبھی کورونا سے اظہار محبت کی نو بت آئے تو میاں بیوی میں یادگار جملوں کا تبادلہ ہوگا شوہر کہے گا ”پیا ری کورونا یو باہر نہ پھرا کرو تمہیں حا سدوں کی نظر لگ جائے گی جواب میں کورونا کہے گی ڈار لنگ ! تم نے مجھے جو محبت دی ہے میں اس کا قرض نہیں اتار سکتی لا ک ڈاﺅن میں نرمی کرکے مجھ پر ایک اور احسان کرو لاک ڈاﺅن سے میرا دم گھٹ جاتا ہے اگر واقعی انڈونیشیا کے وزیر درست کہتے ہیں کورونا کی مثال ناراض بیوی جیسی ہے تو ہمارے دوست اس کو تحفہ بھیج دیں گے۔