پاکستان کے اعلیٰ سطحی وفد نے گزشتہ روز افغانستان کادورہ کیا ‘وفد کے ارکان نے دوسروں کے علاوہ افغان صدر ڈاکٹر اشرف غنی اور افغان مفاہمتی کونسل کے سربراہ عبداللہ عبداللہ کےساتھ بھی تفصیلی ملاقاتیں کیں‘ وفد کی قیادت آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کر رہے تھے جبکہ دیگر اہم شرکاءمیں آئی ایس آئی کے سربراہ جنرل فیض حمید‘ سیکرٹری خارجہ سہیل محمود اور نمائندہ خصوصی برائے افغانستان محمد صادق خان بھی شامل تھے‘ عرصہ دراز کے بعد اس سطح کے اہم ترین وفد کا افغانستان کا یہ پہلا دورہ تھا ‘دورے کے دوران دونوں پڑوسی ممالک کے متعلقہ حکام پر مشتمل ٹیموں کے درمیان مختلف امور پر مشترکہ اجلاس منعقد ہوا جسکے نتیجے میں دونوں ممالک کے درمیان بعض غلط فہمیوں اور شکوے شکایات پر بات ہوئی تاہم اس بات پر دوطرفہ اتفاق کا اظہار کیا گیا کہ خطے کے امن اور استحکام کو ممکن بنانے کیلئے ایک دوسرے پر اعتماد کرنے کے علاوہ ایک دوسرے کیساتھ تعاون کیا جائے گاجبکہ انٹراافغان ڈائیلاگ کے آغاز‘ امریکی انخلاءاور کراس بارڈر ٹیررازم سے متعلق ایشوز اور مسائل کے حل کے بارے میں مختلف تجاویز کا جائزہ لیتے ہوئے اس اہم نکتے پر دوطرفہ طورپر اتفاق کیاگیا کہ دونوں ممالک علاقائی امن کیلئے ایک دوسرے کی سرزمین ایک دوسرے کےخلاف استعمال نہیں کریں گے‘ اگرچہ اب کی باربھی بعض حلقوں نے حسب سابق اس اہم دورے پر منفی تبصرے کئے تاہم افغان صدارتی دفتر سے جاری کردہ بیان میں اس اہم دورے کا خیر مقدم کرتے ہوئے اس عمل کو خطے کے امن اور دوطرفہ تعلقات کی بہتری کیلئے اہم قرار دیاگیا اور پاکستان کے کردار کے تناظر میں اس امید کا اظہار کیاگیاکہ اس دورے کے مثبت نتائج برآمد ہوں گے‘ دوسری طرف امریکہ نے بھی اس دورے کو بڑی پیشرفت قرار دیکر امید ظاہر کی کہ پاکستان اور افغانستان کے باہمی تعاون کے مزید راستے کھلیں گے ‘۔
یہ دورہ ایسے وقت پر کیاگیا جب زلمے خلیل زاد اپنی ٹیم کے ہمراہ قطر‘ پاکستان اور افغانستان کے اہم دورے پر تھے اس ملاقات کے اگلے روز زلمے خلیل زاد نے بھی کابل میں اشرف غنی اور دیگر افغان حکام سے ملاقاتیں کیں اس ضمن میں سب سے اہم نکتہ یہ ہے کہ امریکہ اور عالمی برادری افغان امن کیلئے نہ صرف پاکستان پر انحصار کر رہی ہے بلکہ سب پاکستان کے حالیہ کردار کی تعریف اور مسلسل ستائش بھی کر رہے ہیں تاہم افغانستان کے اندر حکومت میں شامل بعض حلقے اور سابق عہدیدار علاقائی پراکسےز کا حصہ بن کر پاکستان کےخلاف یکطرفہ پروپیگنڈے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دے رہے حالانکہ سب کو یہ بات اچھی طرح معلوم ہے کہ افغان امن پاکستان کے تعاون کے بغیر مشکل ہے تاہم یہ حقیقت دوسروں کے علاوہ اب افغان قیادت کو بھی معلوم ہے کہ یہ لابیز امن اور بعض متوقع تبدیلیوں کو اپنے ذاتی مفادات کیلئے خطرہ سمجھ رہی ہیں اسلئے وہ غلط فہمیاں پھیلانے میں مصروف ہیں اور اپنے ہی ملک کو نقصان پہنچانے کے درپے ہیں‘۔
جنگ اور پراکسےز اب افغان سیاست اور معاشرت پر اتنی چھا گئی ہیں کہ اگر یہ نہ ہوں تو بہت سے اہم لوگوں اور گروہوں کا رزق خطرے میں پڑ جاتا ہے‘ یہی وجہ ہے کہ یہ عناصردوحا مذاکراتی عمل سے لیکر انٹراافغان ڈائیلاگ اور طالبان کی متوقع شراکت داری کے عمل کی نہ صرف مخالفت کرتے آرہے ہیں بلکہ وہ اب بھی پاکستان کو زیادہ تر مسائل کا سبب قرار دیکر روایتی طرز عمل کا مظاہرہ کرتے دکھائی دے رہے ہیں‘ یہ بات بہت خوش آئند ہے کہ ماضی کے برعکس افغان حکمران اب پاکستان کو ہر مسئلے اور اپنی ناکامی کا ذمہ دار قرار نہیں دیتے اور کافی عرصہ سے دونوں ممالک کے تعلقات ماضی کے مقابلے میں بہت بہتر ہوگئے ہیں تاہم اس اہم مرحلے پر افغان قیادت کو ان عناصر پر کڑی نظر رکھنا ہوگی جو کہ اس تمام مثبت عمل کو سبوتاژ اور ناکام بنانے کے ایجنڈے پر گامزن ہیں اگر اب کی بار بھی عالمی اور علاقائی امن کوششیں ناکام ہوگئیں تو اس سے افغانستان خانہ جنگی کا شکار ہو جائے گا اور شیشوں کے گھروں اور دفاتر میں بیٹھے امن دشمن عناصر افغانستان کی بدامنی اور تباہی پر تالیاں بجاتے نظر آئیں گے۔