وہی ہوا جسکا ڈر تھا افغان صدر اشرف غنی نے امریکہ سے درخواست کی ہے کہ خارجی فو جوں کے انخلا ءکا عمل روک دیا جائے اگر خا رجی فو جوں کا انخلاءہوا تو داعش کی طرف سے افغانستان کی سلامتی کو سنگین خطرہ لاحق ہوگا‘ چار ما ہ قبل فروری 2020ءمیں قطر کے دارالحکومت دوحہ مےں افغان شہری زلمے خلیل زاد اور افغان جنگجو ملاعبدالغنی برادر کے درمیان ایک مبہم سا معاہدہ ہوا تھا معاہدے میں دو فریق امریکی حکومت اور افغان حکومت شریک نہیں تھے‘ملاعبدالغنی برادر کو جنگجو کمانڈر کی جگہ امارت اسلامی افغانستان کا نمائندہ ظاہرکیا گیا اسی طرح زلمے خلیل زاد کو امریکی حکومت کا نمائندہ دکھایا گیا دونوں کی دستاویزات میں واضح ابہام تھا ‘ معاہدے میں کہا گیا تھا کہ جنگجو کمانڈروں کی طرف سے جنگ بندی کی جائے گی افغان حکومت کی طرف سے جنگجو گروپوں کے قیدیوں کو رہاکیا جائے گا نیز افغان حکومت اور جنگجو کمانڈروں میں صلح کےلئے بین الافغان مذاکرات کا راستہ اختیار کیا جائے گا‘افغانستان کے اندر امن قائم ہو نے کے بعد 14ماہ کے اندر امریکی فوجیں افغانستان سے نکل جائیں گی جس کو خارجی فوجوں کے انخلاءکا عنوان دیاگیا‘ معاہدے پر دستخطوں کے بعد ایک گروہ نے اس کو تاریخ ساز امن معاہدہ قرار دیا ایک دوسرے گروہ نے افغانیوں کو ان کے وطن میں امن کی راہ ہموار ہونے پر مبارک باد دی۔
معاہدے کے بعد چشم فلک نے دیکھا کہ کابل میں اشرف غنی اور عبداللہ عبداللہ نے دو متوازی حکومتیں قائم کیں‘قطر میں مقیم جنگجوﺅں نے ملا ہیبت اللہ کی سربراہی میں امارت اسلا می کے قیام کا اعلان کیا پھر وقت اور امریکہ نے ایک ساتھ پلٹا کھایا تو اشرف غنی کی حکومت میں امریکی چھتری کے نیچے عبداللہ عبداللہ کو قومی سلامتی کونسل کے سر براہ کا بھاری بھرکم عہدہ مل گیا البتہ ملاہیبت اللہ کی امارت اسلامی اب تک خوابوں اور کاغذوں میں ہے‘اس وقت صورتحال یہ ہے کہ امریکی حکومت اشرف غنی کی حکومت کو اربوں ڈالر کی امداد دے رہی ہے ‘ڈونلڈ ٹر مپ نے اپنی پا رٹی کی انتخابی مہم میں امریکی عوام سے وعدہ کیا تھا کہ وہ اقتدار میں آکر یو رپ‘ افریقہ اور ایشیا کے دوردراز ملکوں میں فوجی خدمات پر امریکی ٹیکس دہندگان کی دولت ضائع نہیں کریں گے‘ انہوں نے ڈنکے کی چوٹ پراعلان کیا تھا کہ عراق‘ شام اور افغانستان یا کسی اور ملک کا دفاع ہمارا مسئلہ نہیں‘امریکی ٹیکس دہندگان کا پیسہ ایسی فضول مہم جوئی پر خرچ نہیں ہونا چاہئے‘ اب ری پبلکن پارٹی ایک بار پھر انتخابی مہم کی تیاری کررہی ہے ساتھ ساتھ امریکی ٹیکس دہندگان کا پیسہ بلکہ ان کے خون پسینے کی کمائی افغانستان میں تین الگ الگ گروہوں پر لٹائی جا رہی ہے‘آزاد ذرائع نے دسمبر 2019ءمیں جو اعدادوشمار جاری کئے ان کی رو سے افغان حکومت کو تےن ارب ڈالرسالانہ کی امداد دی جاتی ہے‘ قطر میں جنگجو کمانڈروں کے دفتر اور قیام پر 50 کروڑ ڈا لر سالانہ کی لاگت آتی ہے جبکہ داعش اور اس کےساتھ وابستہ بلیک واٹر پر بھی ہر سال 50 کروڑ ڈالر کا خرچ آتا ہے‘ امریکی کانگریس سے ان اخراجات کی منظوری لی جاتی ہے۔
جس میں جنگجو کمانڈروں کےساتھ ساتھ داعش کے جاری اخراجات کو سکیورٹی بل کا نام دیکر پا س کروایا جاتا ہے بعض تجزیہ نگاروں نے فروری 2020ءمیں خدشہ ظاہر کیا تھا کہ قطر معاہدہ کے تحت افغانستان میں نہ تو امن قائم ہوگا نہ ہی خارجی فوجوں کا انخلاءعمل میں آئے گا‘ تجزیہ نگاروں کے یاسیت پسند طبقے کا استدلال یہ تھا کہ معاہدے میں نہ امریکی حکومت فریق ہے نہ افغان حکومت شریک ہے جنگجوکمانڈروں نے خود کو امارت اسلامی کا نمائندہ ظاہرکیا ہے جسکا کوئی وجود نہیں‘خارجی فوجوں کے انخلاءکے حوالے سے ناامید طبقے کا خیال تھا کہ عنقرےب افغان حکومت کی طرف سے امریکی صدرکو درخواست بھیجی جائے گی کہ افغانستان کو مزاحمت کاروں کی طرف سے پے درپے حملوں کا خطرہ ہے اس لئے امریکی فوجوں کے انخلاءکا عمل روک دیا جائے ‘یو ں کھیل کا پانسہ امریکہ کے حق میں پلٹ جائے گا‘ 1960ءکے عشرے کا قصہ ہے ‘ایک بد قماش گروہ وارداتیں کرتاتھا اس گروہ کا سر غنہ نہا یت عیا ر اور چالاک آدمی تھااس کے تین بیٹے تھے ایک بیٹے کے ذمے یہ کام تھا کہ کسی گاﺅں پرشب خون مارے جب وہ اپنے ساتھیوں سے شب خون مارتا تو دوسرے بیٹے کا یہ کام تھا کہ وہ گاﺅں والوں کی ہمدردی سمیٹنے کےلئے شب خون ما رنے والوں کو پکڑ کر سزا دیدے اور تیسرا بیٹا پنچایت کا سربراہ یعنی سرپنچ تھا چنانچہ ڈکیتی کا مال تینوں بھائیوں میں تقسیم ہوتا تھا اور گاﺅں کے مجبور مفلوک الحال لوگ ان کے باپ کو صبح وشام دعائیں دیتے تھے‘ افغانستان میںا مریکی طریقہ ورادات بھی اس کہانی سے ملتا جلتا ہے‘ داعش بھی ان کی اپنی‘جنگجو بھی ان کے اپنے اور افغان حکومت بھی ان کی جیب میں چنانچہ سکرپٹ میں جو لکھا ہے اس کے مطابق ڈرامہ ہو رہا ہے اور ہم اس کو افغان امن عمل کا نام دیکر بغلیں بجاتے ہیں ۔