کیا داغ‘ افواہیں اور دروغ گوئی تعمیری عادات ہیں یا ان کے خمیر میں تخریب کاری پوشیدہ ہے؟ جنوب ایشیائی ملک فلپائن کے صوبہ پنگاسنیان کے دیہی علاقے بائنالونن میں ضلعی حکومت نے جھوٹی خبروں‘اطلاعات‘ بشمول افواہیں اور کھسر پھسرجیسے سماجی روئیوں کی حوصلہ شکنی کرنے کے لئے قانون سازی کی ہے‘ جس کے رو سے کسی بھی شخص کی غیبت اور اس سے متعلق بناءتصدیق افواہیں یا خبریں پھیلانا قابل سزاجرم تصور ہوگا۔ ضمنی موضوعات بہت ہیں‘ جیسا کہ یہ بات کس طرح ثابت کی جائے گی کہ افواہ پھیلانے والا پہلا شخص کون تھا؟ غیبت کس کی جانب سے ہوئی؟ جرمانے کی شرح سے جرم کی جانب رغبت کم ہوگی یا نہیں؟ اصولی اور اصل بات یہ ہے کہ دارالحکومت منیلاکے ایک شمالی قصبے نے انسانی معاشرے کی ایک انتہائی اہم ضرورت اور راز کی حقیقت کو پا لیا ہے اور اسی کی جانب اسلام نے یہ کہتے ہوئے چودہ سو برس قبل اشارہ کرتے ہوئے کہہ دیا تھا کہ ”مومن وہ ہے جس کی زبان اور ہاتھ سے دوسرے محفوظ رہیں۔“ صحیح مسلم کی حدیث نمبر 1955 کی ذیل میں ”حضرت فضالہ بن عبید رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ خطیب قرآن‘ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حجة الوداع کے موقع پر ارشاد فرمایا: (ترجمہ): ”کیا میں تمہیں حقیقی مومن کے بارے میں خبر نہ دوں؟ مومن وہ ہے جس سے لوگ اپنے مال و جان کے بارے میں مطمئن رہیں اور حقیقی مسلمان وہ ہے جسکی زبان اور ہاتھ سے لوگ محفوظ رہیں‘حقیقی مجاہد وہ ہے جو اللہ کی اطاعت کے بارے میں اپنے نفس سے جہاد کرے اور حقیقی مجاہد وہ ہے جو گناہوں اور نافرمانی کے کاموں کو ترک کردے۔“قریب 55 ہزار آبادی والے اکثریتی غیرمسلم آبادی والے قصبے کے نئے قانون کے تحت افواہیں پھیلانے والے کو جرمانہ ادا کرنا ہوگا جس میں یہ سزا بھی شامل ہے کہ وہ تین گھنٹے تک قصبے کی سڑک صاف کرے گا۔
اگرچہ مذکورہ قانون میں افواہ کی زیادہ تعریف نہیں کی گئی ہے تاہم قصبے کے میئر رامون گائکو کا کہنا ہے کہ ’اسکی وجہ سے رہائشیوں کے باہمی تعلقات اور انکے مالی معاملات کے حوالے سے غیبت کرنا یا افواہ پھیلانا قابل تعزیر جرم تصور کیا جائے گا‘ اب اگر کسی قصبے‘ علاقے یا شہر کے لوگ غیبت نہیں کریں گے تو وہ اپنے فارغ وقت میں کیا کریں گے اور کیا اس قصبے میں رہنے والی خواتین اس قانون کو امتیازی قرار نہیں دیں گی! پانچ ماہ سے لاگو مذکورہ قانون پر عمل درآمد جاری ہے اور اگرچہ ابھی تک کسی کو سزا نہیں ہوئی لیکن بہرحال اس قانون نے سوشل میڈیا پر ایک بحث کو ضرور متعارف کروایا ہے اور بحث میں حصہ لینے والوں میں شامل ایک تعداد کا کہنا ہے کہ غیبت تو ایک دوسرے کو یاد رکھنے کا بھی بہانہ ہے!کچھ لوگ بشمول ہمارے سیاستدانوں کی اکثریت اسی اصول کی وجہ سے عوام کے حقوق کی ادائیگی نہیں کرتی تاکہ لوگ انہیں ہر وقت یاد رکھیں‘جب کوئی شخص تعلیم و صحت کی بنیادی سہولیات میسر نہیں ہوتیں‘ اسے پینے کا صاف پانی نہیں ملے گا تو وہ اپنے منتخب نمائندوں اور حکمرانوں کو بھول سکے گا؟ کبھی نہیں اور یہی بات سیاستدان چاہتے ہیں کہ انہیں ہمیشہ یاد رکھا جائے‘اسی طرح اگر ذرائع ابلاغ ہر خبر کی تصدیق کرنے بیٹھ جائیں تو پھر نشر و اشاعت کے لئے مواد کہاں سے لائیں کیونکہ پاکستان میں ہر پل نئی خبر دینے والوں کو زیادہ مقبولیت حاصل ہوتی ہے جبکہ سیاست تو نام ہی غیبت اور افواہےں پھیلانے کا ہے جبکہ ایک طبقہ ہر غیبت کےساتھ ہمیں کیا کہتے ہوئے خود کو بری الذمہ قرار دے دیتا ہے!پاکستان میں بھی اگر فلپائن کی طرح قانون نافذ ہو جاتا ہے اور سزا یہی مقرر کی جاتی ہے ۔
کہ مجرم کو سماجی خدمت کرنا پڑے گی‘ تو اس سے نہ صرف سماجی روئیوں بلکہ آپسی تعلقات میں مضبوطی آئے گی‘ جرم سے پیدا ہونےوالے غرور اور تکبر کا خاتمہ ہو گا اور شہر‘ قصبوں یا دیہات میں صفائی کی صورتحال الگ سے بہتر ہو جائےگی‘کیا افواہیں صرف عوام ہی پھیلاتے ہیں یا حکمران بھی اس جرم میں برابر کے شریک ہیں کیونکہ جب وہ یہ کہتے ہیں کہ انصاف عام کریں گے‘بلاامتیاز احتساب کیا جائے گا۔ قانون کی حکمرانی ہو گی۔ تھانہ کچہری کا نظام بدلے گا‘ رشوت ستانی نہیں ہوگی‘ بدعنوانی کا خاتمہ ہو گا۔ طاقت کا سرچشمہ عوام ہیں‘ حکومتی اخراجات میں سادگی اختیار کی جائے گی‘خسارے کا باعث بننے والے قومی اداروں کی اصلاح کی جائے گی‘مالی و انتظامی بدعنوانیاں اور منی لانڈرنگ کرنے والوں کو کسی صورت معاف نہیں کیا جائے گا اور یہ سب اگر عملاً دیکھنے میں نہیں آتا تو کیا اس کا شمار بھی افواہ اور غلط بیانی میں نہیں ہونا چاہئے؟۔