جوہرقابل کاترکِ وطن

 بڑی خبر یہ ہے کہ انتظا می پو سٹوں کے بڑے امتحان سی ایس ایس میں ڈاکٹروں اور انجینئروں کی بڑی تعداد اچھے نمبروں سے پا س ہو کر اسسٹنٹ کمشنر ، اسٹنٹ سپرنٹنڈنٹ پو لیس اور دیگر عہدوں پر تعینات ہو جاتی ہے اس کو جو ہر قابل کا ضیاع کہا جا تا ہے لیکن اس سے بھی زیادہ تشویش ناک بات یہ ہے کہ ڈاکٹروں اور انجینئروں کی بڑی تعداد ملک سے با ہر چلی جا تی ہے ترک وطن کر کے یو رپ ، امریکہ ، کینیڈا ، ملا ئشیا اور خلیجی مما لک کا رُخ کر تی ہے کسی بھی حا لت میں وطن واپس آنا نہیں چاہتی ‘ان کی پہلی تر جیح یہ ہو تی ہے کہ پہلی فرصت میںملک سے باہر چلے جا ئیں اور عمر بھر ملک سے باہر رہیں یورپ اور امریکہ یا خلیجی مما لک کے بعد ملا ئشیا اور بنگلہ دیش جا نے کو بھی پاکستان میں رہنے پر وہ ترجیح دیتے ہیں اس کی بے شمار وجو ہات ہو سکتی ہیں ملک کا سیا سی اور انتظامی ڈھا نچہ ان میں سب سے نما یاں ہے یہ ہمارا سیا سی اور انتظا می ڈھا نچہ ہے جو نئی نسل کو ملک کے مستقبل سے ما یو س کر تا ہے میرا دوست کا لج میں ایف ایس سی کی کلا س کو پڑھا تا تھا تو اپنے قابل طلباءپر فخر کرتا تھا کلا س میں بھی اور کلاس کے با ہر بھی اس بات پر زور دیتا تھا کہ میری کلا س کے قابل بچے آگے جا کر ملک اور قوم کی خد مت کرینگے اب وہ ریٹا ئر منٹ کی زندگی گزار تا ہے تو وہ لائق ، فائق اور قابل بچے ان کو زندگی کے کسی شعبے میں نظر نہیں آتے ایف ایس سی میں جس نے 90فیصد نمبر حا صل کئے تھے۔

 وہ طا لب علم ڈاکٹر بنے کے بعد پو لیس سروس میں گیا کسی دوسرے صوبے میں اس کی پوسٹنگ ہوا کرتی ہے اس طرح انجینئرنگ یونیورسٹی میں گولڈ میڈ ل حا صل کرنے والا طا لب علم ایک بڑے بینک کا وائس پریذیڈنٹ لگا ہوا ہے وہ کسی دوسرے صوبے میں جاتا ہے تو میڈیکل میں گولڈ میڈل لینے والا طالب علم اس کو سلام کر کے بڑے فخر سے بتا تا ہے کہ میں اس ضلع کا ڈپٹی کمشنر ہوں استاد کسی کانفرنس میں شرکت کے لئے برطانیہ ، امریکہ ، کینیڈا یا کسی اور ملک جا تا ہے تو کلاس کے قابل ترین طلباءاس کو وہاں ملتے ہیں خلیجی مما لک کے کسی ہوائی اڈے پر ٹرانزٹ فلائیٹ کے انتظار میں بیٹھتا ہے تو ایسے ہی کسی فلائٹ کے انتظار میں اس کے طالب علموں کی اچھی خا صی تعداد نظر آتی ہے گفت و شنید سے معلوم ہو تا ہے کہ استاد کی پو ری کلا س ملک سے باہر ہے اور جو طا لب علم با ہر نہیں نکل سکے وہ بھی ویزا لگوانے کے چکر میں لگے ہوئے ہیں انگریزی میں اس کیفیت کے لئے برین ڈرین (Brain drain)کی تر کیب استعمال ہوتی ہے اور اس کیفیت کو کسی ملک کی سب سے بڑی بد نصیبی سے تعبیر کیا جا تا ہے ہمارے آئی ٹی پروفیشنلز ، بزنس پرو فیشنلز اور دیگر شعبوں کے ما ہرین کی بڑی تعداد ہر سال ملک چھوڑ کر با ہر جا رہی ہے بیرونی مما لک میں ان کو ہاتھوں ہاتھ لیا جا تا ہے ©©”غربت میں جا کے چمکا گمنام تھا وطن میں “ وطن عزیز کا سیا سی اور انتظا می ڈھا نچہ ایسا ہے جس میں جو ہر قابل کو کھپانے کی گنجا ئش نہیں ہے جوہر قا بل کے لئے ساز گار ما حول مہیا کرنے کی صلا حیت نہیں ہے ۔

ایک نو جوان ایم بی بی ایس ،بی ڈی ایس ، بی ایس سی انجینئر نگ ، ایم فل اور پی ایچ ڈی کرنے کے بعد اپنے شعبے میں آجا تا ہے تو اس کو اچھوت کادرجہ دیا جا تا ہے ایک سپرنٹنڈ نٹ ، سیکشن آفیسر یا اکا ﺅنٹنٹ کو اس کا باس بنا دیا جا تا ہے 10 سالوں تک اس کو گھر نہیں ملتا 18سالوں تک اس کو ترقی نہیں ملتی سعودی عرب میں ایک ڈاکٹر سے ملاقات ہوئی مو صوف سپیشلائزیشن کے بعد اپنے آبائی ضلع میں دکھی انسا نیت کی خد مت کا جذبہ لیکر گئے تھے 8سا لوں تک اس کو جو نیئر آسا می پر رکھا گیا تر قی کا کوئی امکان نظر نہیں آیا تو اس نے استعفیٰ دیدیا اور ملک چھوڑ دیا ایک انجینئر نے ملک چھوڑ نے کی وجہ بتا تے ہوئے کہا کہ دفتری عملہ تقاضا کر تا ہے کہ تنخوا ہ کے انتظار میں بیٹھ کر وقت ضا ئع مت کرو خوب کماﺅ خود بھی کھاﺅ ہمیں بھی کھلاﺅ دفترکے اندر جھا نک کر دیکھیں تو پتہ چلتا ہے کہ ایک ضلع کے اندر سپشلسٹ ڈاکٹروں کی 26 آسامیاں خا لی ہیں‘ 12انجینئروں کی پوسٹوں پر نئی تقرریوں کا انتظا ر ہے گزشتہ 10سالوں سے نئی تقرریاں نہیں ہو رہی ہیں‘ جوہر قابل کا اپنے شعبے کو چھوڑ دینا بہت بڑا مسئلہ ہے ۔