25جولائی 2018ءکو وطن عزیز میں انتخا بات ہوئے تھے ‘نو مبر 2023ءکواگلے انتخا بات ہونے والے ہیں لیکن پرنٹ اور الیکڑا نک میڈیا میں منفی ایک یا منفی سب کی راگنی کے ساتھ قو می حکو مت کا شو شہ چھوڑا جا رہا ہے ‘کسی کے پاس چڑیا کی لائی ہوئی خبر ہے تو کسی کو چڑیل نے خبر دی ہے ‘یہ چڑیا دو سا لوں کے اندر چڑیل کیسے بنی؟ اس پر بات کرنے سے بات نہ کرنا بہتر ہے ‘ایک پادری کو افسروں سے خطاب کی دعوت دی گئی ‘پادری نے بات شروع کرتے ہوئے کہا مجھے جو بات کرنی ہے وہ تو مجھے معلوم ہے مگر مجھے یہ علم نہیں کہ بات کہاں سے شروع کی جائے ہمارے ہاں کی ہر چڑیا اور ہر چڑیل کا یہی مسئلہ ہے ‘ان کو یہ تو بتا دیا جا تاہے کہ کیا بات کرنی ہے لیکن یہ نہیں بتا یا جا تا کہ بات کہاں سے شروع کر نی ہے ‘اس لئے چڑیا بھی بھٹک جا تی ہے چڑیل بھی راستہ بھول جا تی ہے ‘ایک بڑے پریس کلب کے چھوٹے کمرے میں یخ بستہ ہوا تھی ‘کچھ با خبر اور کچھ بے خبر لو گ تھے ‘مختلف موضوعات پر باتیں ہو رہی تھیں ہر ایک کا اپنا موقف تھا ‘اس دوران منفی ایک کا ذکر آیا تو سینئر صحا فی نے کہا یہ شوشہ وہ لو گ چھوڑ تے ہیں جن کی سوچ اور فکر سیا سی نہیں ہوتی ‘ایک صحافی نے کہاکہ وزیراعظم عمران خان مائنس نہیں ہو سکتے وہ پارٹی سے بڑھ کر ہیں، ان کی کسی سے ذاتی لڑائی نہیں۔
اپوزیشن کا مسئلہ صرف احتساب ہے،ایک مہمان نے کہاکہ ملکی سیاسی منظر نامہ اضطرابی کیفیت کا شکا ر ہے ۔اب مائنس یا پلس کی بجائے عوام کی مرضی کو نمبر ون قرار دینا ہوگا‘مہنگائی نے عوام کی زندگی اجیرن کررکھی ہے ‘مہنگائی بے روز گاری کے ستائے عوام اب لوڈ شیڈنگ کا عذاب جھیلنے پر مجبور ہیں۔ایک بے خبر دوست نے لقمہ دیا کہ یہ بات تو ہمارے وزیر اعظم نے قو می اسمبلی میں پا لیسی بیان دیتے ہوئے کہی ‘سینئر صحا فی بولے بھا ئی وزیر اعظم کی سوچ ہمیشہ سیا سی نہیں ہوتی ‘معین قریشی اور شوکت عزیز کونسی سیا سی سوچ اور سیا سی فکر رکھتے تھے ؟ پھر پا لیسی بیان پا لیسی کے بغیر بھی ہو سکتا ہے ‘محمد خان جو نیجو ، میر ظفر اللہ خان جما لی اور چوہدری شجا عت حسین کے بیا نا ت کا ریکارڈ کھنگال کر دیکھیں ‘آپ کو ان میں پا لیسی نظر نہیں آئیگی ‘ایک مہمان نے کہا بعض اوقات حکومت قبل ازوقت انتخا بات کر وا کر سیا سی شہید کا درجہ حا صل کر لیتی ہے اور بھاری مینڈیٹ لیکر دوبارہ آجا تی ہے سینئر اخبار نویس نے کہا درست ہے مگر یہ ایسی حکومت ہوتی ہے جس نے دو سالوں میں تین چار کھرب روپے کے تر قیاتی اور فلا حی منصو بوں پر کام شروع کیا ہواُس تر قیا تی اور فلاحی ایجنڈے کی تکمیل اُس کا ووٹ بینک بن جاتی ہے ہمارا مسئلہ وہی ہے جس کی طرف حبیب جا لب نے اشارہ کیا تھا ۔
سرِ منبر وہ خوا بوں کے محل تعمیر کرتے ہیں
علا ج غم نہیں کرتے فقط تقریر کرتے ہیں
حبیب جا لب جس بے مثال ترنم کیساتھ اپنا کلا م سنا تے تھے اُس کو کا غذ پر منتقل نہیں کیا جا سکتا تاہم ان کی بات کسی کو سمجھائی جا سکتی ہے ‘خا ص کر کے وہ لو گ جو تقریر سننے کے خو گر ہو ںوہ شعر پڑھ کر لطف اندوز ہو سکتے ہیں ‘اس وقت منفی ایک یا قومی حکومت کا شوشہ منتخب قیا دت کے مفاد میں ہر گز نہیں پھر یہ کس کے مفا دمیں ہے ؟ یقینا سوال کرنے والے کا اشارہ حزب اختلاف کی طرف ہو گا لیکن حزب اختلاف کو قوم نہیں ملتی قومی حکومت کہاں سے ملے گی ۔بات یہ ہے کہ حزب اختلاف نے اگر قو می حکومت کا مطا لبہ منوا لیا تو قوم کہاں سے لائے گی؟ کیا ہم 73سالوں کا طویل دورانیہ الٹے پاﺅں چل کر ایک بار پھر 1947ءکا سال واپس لا سکتے ہیں جب ایک قوم نے اپنے لئے الگ وطن حا صل کیا تھا اُس وقت قوم کو وطن کی تلاش تھی ‘آج ہمارے وطن کو قوم کی تلاش ہے اور وطن حیران ہے کہ قوم کدھر گئی ؟ قو م کو 73سالوں سے ورزش والی مشین پر بٹھا یا گیا ہے ‘مشین کی سوئی بتا رہی ہے کہ دس کلو میٹر کا فاصلہ تم نے طے کر لیا ‘مشین کو بند کر کے قوم دیکھتی ہے تو معلوم ہوتا ہے کہ قوم اُسی مقام پر کھڑی ہے جس مقام پر مشین کا بٹن دبا نے سے پہلے کھڑی تھی ‘پریس کلب کا مہمان کہتا ہے جمہوریت کا پودا درخت بننے میں وقت لیتا ہے سینئر صحا فی اپنا تجزیہ بیان کرتے ہوئے کہتا ہے کہ پودے کی جڑیں زمین کے اندر جگہ بنا نا شروع کرتی ہیں تو ما لی اُس کی جڑوں کو اکھاڑ کر دیکھتا ہے کہ جڑوں نے اپنی جگہ بنا ئی ہے یا نہیں؟ منفی ایک اور قومی حکومت کی راگنی بھی اُسی مالی کی طرف سے آ رہی ہے جو بے وقت کی راگنی الابتا ہے ۔