قرنطینہ کی کھڑکی سے

 قرنطینہ کی کھڑ کی سے با ہر دیکھنے کی جو آزادی ملی ہوئی ہے اس کو ہم غنیمت سمجھتے ہیں اور حقیقت میں یہ کسی غنیمت سے کم نہیں اگر کورونا کی وباءمیں کھڑ کی اور روشندان بھی بند ہوتے تو میرا کیا حال ہوتا اور آپ کس حال میںہوتے ‘آج سے 62سال پہلے جو وباءآئی تھی اس میں قرنطینہ کی کوئی کھڑ کی نہیں تھی ملک کے صدر سکندر مر زا تھے‘ 23مارچ 1958ءکو انہوں نے گزٹ نو ٹیفیکیشن جاری کیا ‘اس میں لکھا تھا کہ قواعد کی رو سے صدر سکندر مر زا نے اپنے لئے نشان پا کستان کا سول ایوارڈ منظور کیا ہے‘ اس پر تالیاں بجائی گئیں اس کے 4سال بعد صدر محمد ایوب خان نے نوٹیفیکیشن جاری کیا کہ صدر مملکت نے اپنے لئے فیلڈ مار شل کا رینک منظور کیا ہے ‘آج کے بعد ہمارے صدر محترم کو جنرل ایوب خان کی جگہ فیلڈ مار شل ایوب خان لکھا اور بولا جائے گا ‘اُس زمانے میں لے دے کے اخبارات تھے ‘اخباری کا لم تھے ‘ مشاعرے تھے اور حبیب جا لب جیسے جی دار شعرا ءتھے پھر بھی قرنطینہ کی کسی کھڑ کی سے کوئی کا لم یا شعر باہر نہیں آیا ” میں نہیں جانتا میں نہیں مانتا “ کی تو انا آواز آئی بھی تو و قو عہ کے دو سال بعد آئی ‘ مو جو د دہ دور میں قرنطینہ کی کھڑکی کھلی ہے ۔

مگر اس کھڑ کی سے کوئی توا نا آواز باہر نہیں آتی‘کھڑ کی کے اندر قرنطینہ ہے با ہر حبس ہے اور حبس کے مو سم میں سانس لینا دشوار ہے مجھے جو لائی 1977ءکا وہ دن یا د آتا ہے جب جنرل ضیاءالحق نے اکتو بر میں انتخا بات کرانے کا اعلان کر تے ہوئے اُمید واروں کے لئے کڑی شرائط کا اعلا ن کیا ‘ یہ ایسی شرائط تھیں جن پر پورا ترنا انسان کے بس کی بات نہیں تھی‘ابراہیم جلیس مر حوم نے حبس کے مو سم کا خیال رکھتے ہوئے اُس وقت کے اراکین اسمبلی کی کل تعداد کا حساب لگا نے کے بعد ” جلیس سلا سل “ میں کا لم لکھا کہ ” استد عا یہ تھی کہ مملکت خدا دا د پا کستان میں تین ما ہ بعد انتخا بات ہونے والے ہیں انتخابات میںایک قومی اسمبلی ایوان ِ با لا اور چار صو بائی اسمبلیوں کے لئے 840 امید واروں کی ضرورت ہے ‘اُمید واروں کے لئے جو شرائط رکھی گئی ہیں ان شرائط پر گوشت پوست کے انسان پورے نہیں اتر تے ‘ابراہیم جلیس کا یہ کا لم اُس دور کے قرنطینہ کی سختی پر دلالت کرتا تھا ‘بھارتی شاعر جا وید اختر کی نظم ”نیا حکم نا مہ “ بھارتی وزیر اعظم نریندر مو دی کی فاشزم کا پر دہ چاک کر تی ہے ‘اندر قرنطینہ اور باہر حبس ہوتو لے دے کے شاعر کی زبان ہی رہ جاتی ہے ‘لکھنے والے کا قلم ہی رہ جا تا ہے یا کسی صدیق سالک کا نا ول آجا تا ہے ” پریشر ککر “ یا کسی دل جلے کی کتاب آجا تی ہے ” ہاں ! میں باغی ہوں “ 1964ءکے بعد وطن عزیز میں الیکٹر انک میڈیا کا نیا ہتھیا ر ٹیلی وژن آگیا 40سال بعد 2004ءمیں پرائیویٹ چینل کھل گئے ساتھ ہی فیس بک اور ٹویٹر نے سو شل میڈیا کے نام سے ایک نئی دنیا کا نظارہ کرا یا چنانچہ قرنطینہ کی کھڑ کی سے با ہر دیکھو تو با ہر پورا جہاں نظر آتا ہے ایک ایسی دنیا نظر آتی ہے قلمکار کے مقابلے میں اینکر نام کی نئی بریگیڈ نظر آتی ہے جس کے سامنے قلمکار اور کالم نگار پا نی بھرتے دکھائی دیتے ہیں ‘مظہرا لاسلام کا ایک افسا نہ آیا تھا ” گڑ یا کی آنکھ سے دنیا کو دیکھو “ یہ علا متی کہا نی تھی آج کل کی علا متی کہا نی کا عنوان ہوگا قرنطینہ کی کھڑ کی سے دنیا کو دیکھو۔