مودی سرکاراورکشمیر

 مو دی سرکار نے کشمیر میں ایک سال سے کر فیو لگا یا ہوا ہے ایک کروڑ 26لاکھ کی آبادی اپنے گھروں میں محصور ہے ہر گلی میں ہر گھر کے دروازے پر بھارتی فوج کا پہرہ ہے اگر کوئی 90سالہ بوڑھا باہر نکلتا ہے ، 7سالہ بچی گھر سے با ہر قدم رکھتی ہے تو بھارتی فوج اس کو گو لیوں سے بھون ڈالتی ہے اس ظلم کی وجہ سے گزشتہ ایک سال کے اندر 6ہزار شہری مارے جا چکے ہیں 10ہزار شہریوں کو قید میں ڈالا گیا ہے انسانی حقوق کے ادارے چیلنج کرتے ہیں کہ اگر مو دی سر کار کشمیر میں مقبو لیت کا دعویٰ کرتی ہے تو کر فیو اٹھا کر دیکھ لے لاک ڈا ون ختم کر کے دیکھ لے مگر مو دی سر کار میں اتنا دم خم نہیں ہے لیلیٰ آر تھر جب اغوا ہوئی تو 13سال کی بچی تھی اب اس کی عمر 14سال ہو گئی ہے ایک سال سے بھارتی فوج کے ٹار چر سیل میں بند ہے اس پر عزت کی زندگی حرام ہو چکی ہے ظلم کی حد یہ ہے کہ اس کوعزت کی مو ت چننے کا اختیار بھی نہیں اور بین لاقوامی اداروں کی طرف سے وقتاً فوقتاً جاری ہونے والے اعداد و شمار کی رو سے کشمیر کی ایسی مظلوم بیٹیاں ہزاروں کی تعداد میں ہیں جو بھارتی درندوں کی حراست میں ہیں رمزی کا شانی 17سال کا عاقل با لغ نو جوان ایک سال سے کالج نہیں گیا ، گھر میں محصور ہے کبھی ہفتہ بھی فاقے سے گزر جاتا ہے مہینے میں ایک بار کپڑے بدلتا ہے اپنے 45سالہ باپ سے پو چھتا ہے ابوجی ! ہمیں کیوں گھروں میں قید کیا گیا ہے ؟ باپ سکول ٹیچر ہے ، بیٹے کو بتا تا ہے کہ ہندو ستان کے آئین میں دفعہ 370کے تحت کشمیر کو خصو صی درجہ حا صل تھا اور یہ درجہ اقوام متحدہ کی قرار دادوں کے مطا بق استصواب رائے تک جاری رہنا چاہئے تھا۔

 مو دی سر کار نے5اگست 2019کو آئین کا دفعہ 370ختم کر کے کشمیر کی خصو صی حیثیت کو ختم کیا اقوام متحدہ کی قرار دادوں کو ردی کی ٹو کری میں پھینک دیا آئین کا ایک دوسرا دفعہ 35 /اے تھا اس کے تحت بھارتی ہندوﺅں کو کشمیر میں زمین خرید نے کی اجا زت نہیں تھی اس دفعہ کو بھی ختم کر دیا گیا اب بنا رس ، انبا لہ اور جا لندھر کا ہندو کشمیر میں زمین خرید سکتا ہے چند سا لوں میں یہاں ہندوﺅں کی آبادی مسلما نوں سے زیا دہ ہو گی کشمیر ی آئین کے دونوں دفعات کی بحا لی کےلئے احتجا ج کر رہے ہیں بھارتی فو ج احتجا ج کو روکنے کےلئے کر فیو لگا رہی ہے رمزی کا شا نی اپنے باپ سے پوچھنا ہے کیا ہم اس ملک کے آزاد شہری نہیں ہیں ؟ اُس کا باپ کہتا ہے ہم ہندﺅں کی غلا می میں زند گی گزار رہے ہیں بارہ مو لا آ زاد نہیںمیر پور آزاد ہے ، سری نگر آزاد نہیں مظفر آباد آزاد ہے شوپیاں آزاد نہیں باغ آزاد ہے 17سالہ نو جواں بے بسی کی تصور بنے ہوئے اپنے باپ کے چہرے پر نظر ڈالتاہے باپ کی آنکھوں سے آنسو رواں ہوتے ہیں نو جواں کے صبر کا پیمانہ بھی چھلک جا تا ہے گل رعنا 24سال کی بچی ہے تاریخ میں ایم اے کیا ہے کر فیو سے پہلے مقا می سکول میں پڑھاتی تھی گزشتہ ایک سال سے گھر میں محصور ہے کسی بھی وقت بھارتی فوج گھر میں داخل ہو کر اس کو اُٹھا سکتی ہے اس لئے وہ ہر شام کو آخری شام اور ہر صبح کو آخری صبح قرار دیتی ہے۔

 گل رعنا نے لاک ڈاﺅن سے پہلے گھر میں کتابوں کا ذخیرہ کر لیا تھا وہ ایم فل کے لئے تحقیقی مقالہ لکھنا چاہتی تھی وہ اپنی ماں کو بتاتی ہے کہ اقوام متحدہ کی سلا متی کونسل نے کشمیر یوں کے حق خود ارادیت کےلئے 17قرار داد یں منظور کیں مگر کسی ایک پر بھی عمل نہیں ہوا وہ اپنی ما ں کو بتا تی ہے کہ 1947ءمیںپورا ہندوستان آزاد ہوا صرف کشمیر آزاد نہیں ہوا کسی بھی یو نیورسٹی کی لائبریری میںکسی بھی ریڈیو یا ٹی وی چینل کے ڈیوٹی روم میں اور کسی بھی اخبار کے ڈیسک پر معلومات عامہ کی ایک کتاب مو جو د ہوتی ہے اس کتاب میں دیگر عالمی معلومات کےساتھ کشمیر کے بارے میں چند اہم حقائق ملتے ہیں 3 لاکھ مربع کلو میٹر پر مشتمل مقبوضہ کشمیر کو سری نگر‘ جموں اور لداخ کے تین الگ جغرافیائی خطوں میں تقسیم کیا گیا ہے‘ 1947ءمیں تقسیم ہند کے منصوبے میںیہ اصول طے کیا گیا تھا کہ جس صوبے میں اکثریتی آبادی مسلمانوں کی ہو گی وہ صوبہ یا ریاست پاکستان میں شا مل ہو گی کشمیر کے ڈوگرہ راجہ نے اس اصول کو ماننے سے انکار کیا کشمیر گزشتہ 72سالوں سے اقوام متحدہ کے ایجنڈے پر مو جو د ہے مشرقی تیمور میں عیسائی آبادی انڈو نیشیا کے مسلمان ملک سے آزاد ی کا مطالبہ کر رہی تھی مغر بی اقوام نے آزادی کےلئے لڑنے والے دو لیڈروں کا رلوس بیلو اور سنا نہ گسماﺅ کو امن کا نو بل انعام دیا سلا متی کونسل نے رائے شماری کر وا کر مشرقی تیمور کو آزادی دلوائی کشمیر میں بھارت کی ہندو اکثریت سے آزادی کا مطا لبہ کرنے والے حریت پسند وں کو دہشت گر د قرار دیا جا تا ہے اور کشمیر میں رائے شماری سے مسلسل انکار کیا جا رہا ہے اس طرح جہاں مغربی دنیا کا دہرا معیار بے نقاب ہورہا ہے وہاں اقوام متحدہ کی منا فقانہ سفارت کاری کا پردہ چاک ہوتا ہے مگر آخر کب تک یہ کھیل جاری رہے گا کشمیری ایک نہ ایک دن آزادی حا صل کر کے رہیں گے ۔