پی ٹی آئی حکومت کی 2 سالہ کارکردگی

عمران خان کی زیر قیادت پی ٹی آئی کی حکومت نے غیر یقینی صورتحال کے باوجود دو سال مکمل کئے ہے ‘ اس عرصے کے دوران عمران خان اور ان کی ٹیم نے الیکشن مہم میں تبدیلی کے جو دعوے اور وعدے کئے تھے ان کے بارے میں حکومت کہتی رہی کہ وہ دو سال تک سابق حکمرانوں کی گندگی صاف کرتی رہی اس لئے حقیقی تبدیلی ممکن نہ ہو سکی جبکہ اپوزیشن کے علاوہ میڈیا اور عوام کی بھی اکثریت کی رائے یہ ہے کہ حکومت یا پی ٹی آئی بوجوہ تبدیلی لانے میں ناکام رہی ہیں اور عوام نے عمران خان سے جو توقعات وابستہ کی تھیں ان کی ٹیم ناتجربہ کاری اور خراب معاشی حالات کے باعث ان توقعات پر پورا اترنے میں ناکام رہی دو طرفہ بحث کے باوجود خوش آئند بات یہ ہے کہ ایک جمہوری حکومت اور اسمبلیوں نے دو سال مکمل کئے ہیں اورمقتدر قوتوں نے بھی اس عرصے کے دوران حکومت اور سول اداورں کا ممکنہ ساتھ دیکر خود کو مداخلت سے بچائے رکھا عمران خان کی خوش قسمتی یہ رہی کہ اگر ایک طرف ان کو بوجوہ مقتدر حلقوں کی حمایت حاصل رہی تو دوسری طرف اپوزیشن بھی اپنی اندرونی بے اتفاقی کے باعث چاہتے ہوئے بھی حکومت کےخلاف کوئی بڑی یاموثر تحریک چلانے میں ناکام رہی اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ ان د و برسوں میں عمران خان کی مخالفت محض بیانات یا بند کمروں کے اجلاسوںتک محدود رہی ‘ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن کوبعض اداروں کے دباﺅ کے علاوہ مقبول قیادت کے فقدان کا مسئلہ درپیش رہا جبکہ چھوٹی پارٹیوں کے پاس وہ قوت یا صلاحیت موجود نہیں تھی جس کے ذریعے حکومت کو ٹف ٹائم دیکر مشکلات سے دو چار کیا جا سکتا تھا۔

 امریکہ کا پاکستان کے اندرونی معاملات میں ہمیشہ بڑا اہم کردار رہا ہے تاہم اس عالمی طاقت نے بھی اس عرصے کے دوران پاکستان یا حکومت کے اندرونی معاملات میں کوئی مداخلت نہیں کی جبکہ چین نے بعض خدشات کے باوجود پاکستان کی مسلسل حمایت جاری رکھی اور با اثر عرب ممالک کےساتھ بھی مجموعی طور پر تعلقات بہتر رہے ۔ عمران خان نے جہاں فاٹا کو ضم کرکے وہاں عام انتخابات کرانے کا کریڈٹ لیا وہاں اس حکومت نے افغانستان کے ساتھ مثبت تعلقات کے آغاز پر بھی توجہ دی اور اس سلسلے میں نہ صرف دوحا معاہدے کے قیام میں اہم کردار ادا کیا بلکہ دو طرفہ تلخی کے خاتمے میں بھی مدد دی یہی وجہ ہے کہ پاکستان عالمی توجہ کا مرکز بنا رہا اور اس کے کردار کو سراہا گیا۔ان دو برسوں کے عرصے میں پاکستان کے بھارت کےساتھ تعلقات بہت کشیدہ رہے اور متعدد بار جنگ کے بادل منڈلاتے دکھائی دئیے مگر حکومت نے عسکری قیادت کے تعاون سے ممکنہ حد تک بھارت کے عزائم کو ناکام بنایا اور پاکستان کے کیس کو عالمی برادری کے سامنے مو¿ثر طریقے سے پیش کرنے کی پالیسی اپنائے رکھی۔اس عرصہ کے دوران ملک کی اکانومی میں کوئی بڑی تبدیلی یا بہتری نہیں لائی جاسکی جبکہ کورونا بحران نے رہی سہی کسر بھی پوری کرلی ¾ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ بے روزگاری اور مہنگائی میں مسلسل اضافہ ہوتا گیا اور عوام کے معاشی اور معاشرتی مسائل بڑھتے گئے ¾حکومت کو عالمی طاقتوں ¾مالیاتی اداروں ¾دوست ممالک اور قرضوں پر انحصار کرنا پڑا جس کے نتیجے میں ملک میں روزگار یا ترقی کا کوئی بھی بڑا یا مو¿ثر منصوبہ شروع نہیں کیا جاسکا جبکہ صوبوں کو بھی بعض بنیادی مشکلات اور شکایات کا سامنا رہا۔

 پنجاب اور خیبر پختونخوا کی حکومتیں مسلسل تنقید اور اکھاڑ بچھاڑ کی زد میں رہیں جبکہ سندھ کی حکومت وفاق کے ساتھ بوجوہ محاذ آرائی میں مصروف رہی اور اس کا نتیجہ عوام کو مسائل میں اضافے کی صورت میں بھگتنا پڑا۔بیورو کریسی عدم تعاون کے رویے پر چلتی دکھائی دی تو نیب کے اکثر فیصلوں کو انتقام کا نام دیگر تنقید اور مزاحمت کا نشانہ بنایا جاتا رہا تین چار بار حکومت اور اعلیٰ عدلیہ کے درمیان کشیدگی اور تلخی بھی مشاہدے میں آئی ¾ ٹیم میں مسلسل تبدیلیاں کی جاتی رہی جبکہ مسلم لیگ (ق) بی این پی اور ایم کیو ایم پر مشتمل اتحادیوں کےساتھ بھی کئی بار اختلافات پیدا ہوئے اس غیر یقینی صورتحال کے باعث عمران خان اور حکومت کی مقبولیت کافی متاثر ہوئی جس کا متعدد بار نہ صرف یہ کہ عمران خان نے خود اعتراف کیا بلکہ وہ آن دی ریکارڈ اپنی بعض ناکامیوں کا اعتراف کرنے سمیت اپنے بعض وزراءاور مشیروں کی سرزنش بھی کرتے دکھائی دئیے ان عوامل اور رکاوٹوں نے جہاں تبدیلی یا ترقی کی راہ میں رکاوٹیں ڈالیںوہاں اپوزیشن کی اہمیت ¾مقبولیت اور سرگرمیوں میں اضافے کا راستہ بھی ہموار ہوا جس نے کئی بار پارلیمنٹ اور اسکے باہر حکومت کےلئے کئی مشکلات پیدا کیں اور اب عید کے بعد اپوزیشن کی ایک مو¿ثر تحریک کے لئے تیاریاں اور رابطے جاری ہیں اس بات سے قطع نظر کہ یہ حکومت اپنی آئینی مدت پوری کرسکے گی یا نہیں تلخ حقیقت یہ ہے کہ آئندہ چند ماہ حکومت کےلئے انتہائی اہم اور فیصلہ کن ثابت ہو سکتے ہیں۔