تازہ ترین خبروں میں تازہ ترین عالمی نظام کی بات ہورہی ہے اس میں امریکہ نے چین کو للکارا ہے امریکہ میں چین کا ایک قونصل خانہ بند کیا گیا تو چین نے ایک گھنٹہ تاخیر کئے بغیر چین میں امریکہ کا ایسا ہی قونصل خانہ بند کر کے امریکی قونصلیٹ کے عملے کو ملک سے نکا ل دیا دونوں مما لک کے درمیاں تلخی بڑھ رہی ہے مبصرین کا خیال ہے کہ حا لات ایک اور سرد جنگ کی طرف جا رہے ہیں 1945ءسے 1991ءتک امریکہ نے سویت یو نین کے خلا ف افریقہ ،یورپ ،امریکہ اور ایشیا کے برا عظموں میںہتھیار اٹھا ئے بغیر جنگ لڑی جس کو دنیا میں سرد جنگ کا نام دیا گیا انگریزی اخبارات نے ” کولڈ وار“ کے لئے مستقل ڈیسک قائم کیا نشر یاتی اداروں میں اس کا الگ شعبہ کام کر تا تھا 1991ءمیں سویت یو نین کا شیرازہ بکھر گیا روسی فیڈریشن کے نام سے چھوٹا ملک رہ گیا تو امریکہ نے مسلما نوں کے خلاف سرد جنگ کا آغاز کیا اس کو سمو ئیل ہنٹنگ ٹن نے تہذیبوں کا ٹکراﺅ قرار دیا معمر قذافی اور صدام حسین نے اس کانام خو فِ اسلام رکھا جسے انگریزی میں اسلاموفو بیا کہا جا تا ہے وقت گزر نے کے ساتھ روس نے دوبارہ انگڑائی لی عوامی جمہوریہ چین نے سر اٹھا لیا اب امریکہ کو ایک بار پھر کمیو نزم کے خطرے کا سامنا ہے اور کمیو نزم کے اس خطرے کی وجہ سے کچھ وقت کے لئے اسلا مو فو بیا پس ِ منظر میں چلا گیا ہے 1991سے پہلے والا دور واپس آگیا ہے جب مغر بی اقوام کو باور کرا یا جارہا تھا کہ کمیو نزم کا خطرہ اُن کے سروں پر منڈ لا رہا ہے ترک دانشوروں کا خیال یہ ہے کہ امریکہ اور چین کے درمیاں محا ذ ارائی آگے بڑ ھی تو مسلما نوں کو اپنی نئی صف بندی کا مو قع ملے گا۔
اس مو قع سے فائدہ اٹھا کر رجب طیب اردغان کی قیا دت میں اسلا می مما لک دنیا میں اپنا کھو یا ہوا مقام دو بارہ حا صل کر سکتے ہیں ایران ، لبنان ، شام اور یمن کے دانشوروں کا خیال ہے کہ مسلما نوں کوا مریکہ نے 1945ءکے بعد سرخ انقلاب سے ڈرا کر غلا م بنا نے کی کو شش کی تھی سویت یو نین کے ٹو ٹنے کے بعد امریکہ کا مکروہ چہرہ سامنے آگیا اور مسلما نوں کو شدت کے ساتھ اس بات کا احساس ہوا کہ ہمیں سرخ انقلاب سے کوئی خطرہ نہیں البتہ امریکی غلامی سے شدید خطرہ لا حق ہے مسلمانوں کی اس امریکہ بیزاری نے مغربی اقوام کو اپنے طرز عمل پر نظر ثا نی کے لئے آما دہ کیا مگر امریکہ یو رپی یونین اور بر طانیہ کی اشرافیہ اپنے پرانے نکتہ نظر پر بضد ہے کہ مسلما نوں کو اب بھی اندھیر ے میں رکھا جاسکتا ہے تازہ ترین عالمی نظام کے لئے جو نئی صف بندی ہورہی ہے اس میں ایک طرف امریکہ ہے دوسری طرف چین ہے امریکہ کو استحصالی قو توں کی پشت پنا ہی حا صل ہے چین کی پُشت پر دنیا کی تر قی پسند اقوام نظر آتی ہیں جو بر اعظم امریکہ میں بھی ہیں ، یو رپ ، افریقہ اور ایشیا میں بھی ہیں۔
تازہ ترین عالمی نظام کا ایک اور پہلو معا شی بھی ہے 1991ءمیں امریکہ نے ” نیوورلڈ آرڈر “ یا نئے عالمی نظام کا جو خا کہ پیش کیا اُس کے دو حصے تھے ایک حصہ یہ تھا کہ سویت یو نین کے حصے بخرے ہونے کے بعد امریکہ واحد عالمی قوت بن گیا ہے دنیا میں امریکی طاقت کو للکار نے والا کوئی نہیں رہا اس کا دوسرا حصہ یہ تھا کہ دنیا کی معیشت امریکہ کے ہاتھ میں آگئی ہے اب دنیا میں امریکہ کی حا کمیت چلے گی 2020ءمیں عوامی جمہوریہ چین نے امریکہ کے دو نوں غرور خا ک میںملا دئیے اب امریکہ کو للکار نے والا ملک سامنے آگیا ہے چین نے ون بیلٹ ون روٹ (OBOR) کا تصور دیکر اپنا مال ریلوے لائن اور سمندری بند ر گا ہوں کے ذریعے ایشیا ، افریقہ اور یو رپ کی تما م منڈیوں تک پہنچا نے کا نہا یت کامیاب اور نما یاں تجربہ کر کے دکھا یا ہے امریکی کساد با زاری کے دور میںا پنا کھر بوں ڈالر کا سر ما یہ لگا کر امریکی ما رکیٹ پر عملاً قبضہ کر لیا ہے اب اگر چین اپنا سر مایہ واپس نکا لتا ہے تو امریکی معیشت دھڑام سے نیچے گرنے والی ہے صدر ٹرمپ اگر چہ اظہار نہیں کرتے تا ہم وہ اس حقیقت سے پوری طرح آگاہ ہیں۔