چین سے سفر شروع کرنے والے نئے کورونا وائرس کے بارے میں جس قدر تحقیق آگے بڑھ رہی ہے اُسی قدر اِس وبا کی حیران کن خصوصیات سامنے آ رہی ہے اور اب یہ کہا جا رہا ہے کہ اُن تمام متاثرہ افراد کو کہ جنہوں نے ہسپتال میں زیرعلاج رہ کر کورونا وبا کو بظاہر شکست دی ہے لیکن اِن میں اکثر مریضوں کو طویل المیعاد بنیادوں پر مختلف بیماریوں کا سامنا ہوسکتا ہے یعنی وہ مکمل صحت یاب نہیں ہوتے اگرچہ اُن کے کورونا ٹیسٹ منفی آ بھی جائیں۔ یہ بات برطانیہ میں ہونے والی طبی تحقیق میں سامنے آئی ہے۔ کورونا وائرس کی خود کو پوشیدہ رکھنے کی خصوصیت متعلقہ شعبے کے طبی ماہرین کے لئے نیا درد سر ہے۔ ذہن نشین رہے کہ پاکستان میں اب تک کورونا سے مجموعی طور پر 2 لاکھ 84 ہزار سے زیادہ افراد متاثر ہوئے جن میں سے 2 لاکھ 60 ہزار سے زیادہ صحت یاب ہو چکے ہیں جبکہ قریب 6ہزار 100 اموات ہوئی ہیں!برطانیہ کی معروف لیڈز یونیورسٹی کی تحقیق کے مطابق کورونا وائرس سے متاثر ہونے کے بعد طویل المیعاد علامات میں شدید تھکاوٹ‘ سانس لینے میں مشکلات‘ نفسیاتی مسائل بشمول توجہ مرکوز کرنے اور یادداشت متاثر ہونے اور مجموعی طور پر معیار زندگی متاثر ہونے جیسے امور شامل ہے۔
قابل ذکر ہے کہ برطانیہ میں کورونا وبا کو شکست دینے والے افراد کو درپیش مسائل پر یہ پہلا تفصیلی جائزہ لیا گیا اور محققین کا کہنا ہے کہ چونکہ یہ ایک نئی بیماری ہے اور اِس سے متاثرہ افراد کے ہسپتالوں سے خارج ہونے والے بعد کی زندگی میں درپیش طویل المیعاد مسائل کے بارے میں زیادہ معلومات فی الوقت دستیاب نہیں ہیں۔ ترقی یافتہ ممالک میں مریض کو ہسپتال سے رخصت کرنے کے بعد دروازہ بند نہیں کر دیا جاتا اور نہ ہی ایک مرتبہ مریض کی صورت سامنے آنے والے شخص کو مکمل صحت یاب سمجھا جاتا ہے بلکہ اُس کے مرض کے ماضی و حال (ہسٹری) پر نظر رکھی جاتی ہے اور بالکل یہی انداز وہاں کے قانون نافذ کرنے والے ادارے بھی کرتے ہیں کہ کسی مجرم کی ’کرائم ہسٹری‘ بطور خاص مرتب کر کے محفوظ رکھی جاتی ہے۔ کورونا وبا کے بارے میں ایسے شواہد کا سامنا آنا تشویشناک ہے کہ ”مکمل صحت یابی“ کے
عمل میں کئی ماہ لگ سکتے ہیں اور ضروری ہے کہ بحالی نو کے لئے کورونا متاثرین کی معاونت کی جائے‘ مذکورہ تحقیق میں کورونا وبا کے ایسے 100مریضوں کا 8ہفتوں تک جائزہ لیا گیا جن کو برطانیہ کے مختلف ہسپتالوں سے صحت یابی کے بعد گھر جانے کی اجازت دی جا چکی تھی۔ ڈسچارج ہوئے اِن افراد کو دو گروہوں میں تقسیم کیا گیا۔ ایک گروپ اُن افراد پر مشتمل تھا جو بہت زیادہ بیمار اور آئی سی یو میں زیرعلاج رہااور ان کی تعداد 32تھی۔ دوسرا گروہ 68افراد پر مشتمل تھا اور یہ ایسے مریض تھے کہ جن میں کورونا وائرس کی موجودگی ثابت ہوئی‘ وہ ہسپتالوں میں زیرعلاج بھی رہے لیکن اُنہیں انتہائی نگہداشت کے وارڈوں (آئی سی یو) میں علاج معالجے کی ضرورت نہیں پڑی تھی۔
مذکورہ افراد سے صحت یابی کے بعد اور مرض کی اُن علامات کے بارے میں کئی سوالات پوچھے گئے جن کا وہ صحت یابی کے بعد سے تاحال سامنا کررہے تھے اور نتائج سے معلوم ہوا کہ ان دونوں گروہوں سے تعلق رکھنے والوں میں سب سے عام علامت (شکایت) شدید تھکاوٹ کی تھی یعنی کورونا وائرس سے ایک مرتبہ متاثر ہونے والا شخص طویل مدت تک اِس کے حصار سے نہیں نکل سکتا۔ ایسے افراد جو عام وارڈز میں زیرعلاج رہے ان میں ساٹھ فیصد سے زائد نے معتدل یا شدید تھکاوٹ کو رپورٹ کیا جبکہ آئی سی یو میں زیرعلاج افراد میں یہ شرح 72فیصد تھی۔ مرض کی دیگر عمومی علامات میں ’سانس لینے میں مشکلات‘ بھی شامل تھی جس کے بارے میں دونوں قسم کے کورونا سے صحت یاب مریضوں نے کہا کہ کورونا سے قبل‘ اِنہیں اس قسم کے مسائل کا سامنا نہیں تھا۔ اس مسئلے کی شرح آئی سی یو میں زیرعلاج رہنے والے افراد میں 65.6فیصد جبکہ عام وارڈ میں علاج کرنے والوں میں 42.6فیصد بتائی گئی ہے۔تیسری عام علامت نفسیاتی مسائل سے متعلق سامنے آئی ہے‘ جس کی شرح وارڈ میں زیرعلاج افراد میں پچیس فیصد کے قریب جبکہ آئی سی یو میں زیرعلاج افراد میں پچاس فیصد کے قریب ہے۔
محققین کے مطابق ’آئی سی یو‘ میں زیرعلاج رہنے والے افراد نسبتاً زیادہ نفسیاتی امراض کا شکار ہوتے ہیں‘ جس کے کئی پہلو ہیں جیسا کہ موت کا ڈر‘ تکلیف دہ علاج کا خوف‘ درد‘ کمزوری‘ نیند کی کمی وغیرہ۔ اِسی طرح ’آئی سی یو‘ میں رہنے والے اڑسٹھ فیصد سے زیادہ جبکہ وارڈ میں زیرعلاج رہنے والے پینتالیس فیصد سے زیادہ مریضوں نے مجموعی معیار زندگی متاثر ہونے کی شکایت کی۔ لب لباب یہ ہے کہ کورونا وبا سے نجات ممکن نہیں اور اگر پاکستان میں بھی اِس کے طویل المیعاد اثرات کا جائزہ لیا جائے تو ایسے ہی نتائج سامنے آئیں گے‘ جن کے مطابق علاج معالجے کی خصوصی سہولیات تشکیل دینا ہوں گی کیونکہ کورونا سے نمٹنے کے لئے فوری طبی امداد کافی نہیں اور اِس مرض سے خاطرخواہ اندازمیں نمٹنے کے لئے روایتی ہسپتالوں اور روایتی طریقہ¿ علاج (صحت عامہ کے نظام) پر نظرثانی کی اشد ضرورت ہے۔ (بشکریہ: دی نیوز۔ تحریر: ڈاکٹر نادیہ اصغر۔ ترجمہ: ابوالحسن امام)