ملکوں کے درمیان تعاون کے لئے بنا ئی گئی علاقائی تنظیموں پر گرما گرم بحث جار ی ہے خبروں میں یہ بھی آرہا ہے کہ سعو دی عرب نے پاکستان سے قرضوں کی واپسی کا مطا لبہ کر کے اچھا نہیں کیا ‘خبروں کی رو سے پا کستان کو اسلا می ملکوں کی تنظیم او آئی سی (OIC) سے بھی شکا یات ہیں یہ خبر بھی آئی ہے کہ وزیر خار جہ شاہ محمود قریشی نے کشمیر کے مسئلے پر سعو دی عرب سے جواب طلبی کی تھی کہ تم ہمارے ساتھ ہو یا دشمن کے ساتھ ہو‘ نتیجہ ظا ہر ہے جو آنا تھا وہی آگیا کورٹ کچہری جانے والوں میں ایک لطیفہ بہت مشہور ہے کہتے ہیں ایک آدمی وکیل کے پاس آیا اور وکیل کو بتا یا کہ میں اپنے مقدمے کا دفاع کرنے کے قابل نہیں ہو ں میرے پا س اپنے دفاع میں کہنے کو کچھ بھی نہیں وکیل نے کہا تم ہر سوال کے جواب میں پنچ کہو باقی کام مجھ پہ چھوڑو حر بہ کامیاب ہوا ملزم سے جو بات پو چھی جا تی وہ کہتا ” پنچ “ پو لیس کے سامنے پنچ ، عدالت میں پنچ ، مجسٹریٹ کے سامنے پنچ ، سر کاری وکیل کے جر ح کے جواب میں پنچ 4سال بعد ملزم کو فاتر العقل ثا بت کر کے الزام سے بری قرار دیا گیا جیل سے رہا ئی کے بعد وکیل نے اپنی فیس ما نگی تو ملزم نے کہا ” پنچ “ اس پر وکیل چکرا گیا تا ہم وہ کوئی عام آد می نہیںتھا آخر وکیل تھا اُس نے پہلے ملزم کو زور دار تھپڑ رسید کیا جب اس کے حواس ٹھکا نے آگئے تو وکیل بولا ” دیکھو تمہارا پنچ دوسری جگہوں پر چل سکتا تھا ۔
استاد کے سامنے یہ پنچ نہیں چلے گا بو لو پیسے کب لاﺅگے ؟ “ملزم نے کہا ابھی دے دیتا ہوں چنانچہ فیس وصول ہوئی بُش نے ہمارے حکمرانوں کو دھمکی دی تھی تو وجہ یہ تھی کہ ہمارے حکمران امریکہ کے مقروض تھے اس طرح کی دھمکی ہم سعودی عرب کو نہیں دے سکتے کیونکہ اُس نے ہم کو قرض دیا ہوا ہے اوآئی سی کا معا ملہ بھی ایسا ہی ہے جنو بی ایشیا کے ملکوں کی تنظیم سارک بھی خا موش ہے بلکہ نیم مر دہ یا غنود گی والی ایسی حالت میں ہے جس کو انگریزی میں ہائبرینشن کہا جا تا ہے 1969میں مر اکش کے شہر رباط میں او آئی سی کی بنیاد رکھی گئی تو 28اسلا می ممالک کی اس تنظیم سے کئی تو قعات وابستہ کی گئیں وقت کے ساتھ ممبر ملکوں کی تعداد میں اضا فہ ہوتا رہا اب یہ 57ملکوں کی تنظیم ہے مگر کہیں نظر نہیں آرہی’ اسی طرح 1985ءمیں بنگلہ دیش کے دارلخلا فہ ڈھا کہ میں سارک کی بنیاد رکھی گئی تو یہ 7 ملکوں کی تنظیم تھی بنگلہ دیش ، پاکستان ، بھارت ‘ نیپال ‘بھوٹان‘مالدیپ اورسری لنکا اس کے بانیوں میں شا مل تھے بعد میں افغا نستان کی شمولیت سے ممبر ملکوں کی تعداد 8ہو گئی 2016 میں اس کا انیسواں سربرا ہی اجلاس اسلام اباد میں بلا یا گیا تھا۔
جو بھارت کے بائیکا ٹ کی وجہ سے منسوخ ہوا 4سال بعد 2020ءمیں پھر یہ اجلاس منعقد ہونا تھا لیکن بھارت کا رویہ 2016کے سال سے مختلف نہیں ہے چنانچہ 2014کا کٹھمنڈو سر براہ اجلاس اس کا آخری اجلا س ثا بت ہونے والا ہے اسی طرح شنگھائی تعاون تنظیم 8ملکوں کی علا قا ئی تنظیم ہے چین اور روس کے علا وہ بھارت بھی اس کا ممبر ہے دیگر ممبروں میں پاکستان‘ قازقستان‘ قرغزستان‘ ازبکستان اور تا جکستان اس کے ممبر ہیں شنگھائی تعاون تنظیم کا دائرہ کار کا فی وسعت رکھتا ہے اس میں علاقائی تجا رت کے وسیع مواقع موجود ہیں لیکن اس پر غنود گی طاری ہے ایک اہم تنظیم کی بنیاد 1955ءمیں انڈو نیشیا کے شہر بنڈونگ میں رکھی گئی تھی پا کستان اور بھارت سمیت اس کے ممبروں کی تعداد 120بھی 1961میں یو گو سلا ویہ کے دارلحکومت بلغراد میں اس کا با قاعدہ تنظیمی ڈھا نچہ قائم کر کے اس کو غیر وا بستہ مما لک کی تحریک کا نام دیا گیا سرد جنگ کے زمانے میں امریکہ اور سویت یو نین کے دائرہ اثر سے الگ رہ کر ممبر ملکوں کے مفاد میں کام کرنے کا عہد کیا گیا مگر ایسا نہیںہوا چنا نچہ غیر وابستگی کے خواب سے سب کے سب غیر وابستہ ہو گئے اب کشمیر کے مسئلے پر سعو دی عرب اور او آئی سی کا خا موش ہونا اچھنبے کی بات ہر گز نہیں” اس طرح تو ہوتا ہے اس طرح کے کا موں میں “ ۔