صو بائی حکومت نے قرآن کی تعلیم کو لا زمی قرار دیا ہے وفا قی حکومت نے بھی قرآن کی تعلیم کو لا زمی قرار دینے کا حکم جا ری کیا ہے لیکن پرائمری سکولوں میں قرآن کی تعلیم کے لئے معلم دینیات کی کوئی آسامی نہیں دی گئی سوات دیر اور چترال کی سابق ریا ستوں میں قرآن کی تعلیم کےلئے ہر پرائمری سکول میں معلم دینیات (TT) کی پوسٹ دی جاتی تھی جس کو عرف عام میں معلم استاد کہا جاتا تھا معلم استاذ پانچویں جما عت تک قرآن نا ظرہ تجوید کے اصو لوں کے مطابق پڑھاتا تھا ایما نیات کی تعلیم دیتا تھا اور تیسری جماعت سے لیکر پانچویں جماعت تک طلباءاور طالبات کو نماز پنجگا نہ کی تعلیم دیتا تھا ظہر کی نما ز سکول کے اوقات میں پڑ ھا تا تھا 1990ءمیں میر افضل خان مر حوم کو وزیر اعلیٰ بنا یا گیا تو انہوں نے پرائمری سکولوں سے معلم دینیات کی آسامیوں کو ختم کر نے کا حکم جاری کیا 1994ءمیں آفتاب احمد خان شیرپاﺅ وزیر اعلیٰ بنے تو انہوں نے ہائی سکو لوں کے لئے معلم دینیات کی ایک پو سٹ کو نا کا فی قرار دیکر عربک ٹیچر (AT) اور قاری کی الگ الگ آسا میاں منظور کیں لیکن پرائمری سکول میں معلم دینیات کی آسا می کو دوبارہ بحال کرنے پر ان کی توجہ مبذول نہیں کرائی گئی مو جودہ حالات میں پرائمری کی سطح پر قرآن پا ک کی لا زمی تعلیم پر عمل در آمد کا کم خر چ بالا نشین انتظام ہو سکتا ہے اور اس پر سر کاری خزانے سے کوئی اضا فی بجٹ نہیں لگے گا
سب سے پہلے اس بات کو طے کرنے کی ضرورت ہے کہ قرآن پا ک لازمی تعلیم صر ف پرائمری سکولوں میں دی جا سکتی ہے ہا ئی سکولوں میں اس کی کوئی گنجا ئش نہیں اور پرائمری سکو لوں میں تجوید کےساتھ قرآن پا ک کی لا زمی تعلیم کو ٹائم ٹیبل میں شامل کرنے کےلئے ہا ئی سکو لوں سے قاری اور اے ٹی کی دو آسا میوں کو پرائمری سکو لوں میں تبدیل کرنا کا فی ہو گا جن لو گوں کو سکول کے نظم و نسق اور ٹائم ٹیبل کا علم یا تجربہ ہے وہ بخو بی جا نتے ہیں کہ سائنس ، ڈرائنگ اور کمپیو ٹر کے مو جو دہ دور میں ہائی سکول کے اندر اسلا میات کے 5پیریڈ ہوتے ہیں 3اساتذہ میں سے دو کو دو، دو پیریڈ ایک استاذ کو ایک پیریڈ ملتے ہیں اور یہ اعلیٰ تعلیم یافتہ افرادی قو ت کا ضیا ع ہے عربک ٹیچر ،قاری اور ٹی ٹی کو کبھی اردو کے پیریڈ میں اور کبھی معاشرتی علوم کی کلا س میں بھیجا جا تا ہے قریب ہی پرائمری سکول واقع ہے وہاں قرآن اور اسلامیات پڑ ھا نے والا کوئی استادہی نہیں عجیب صورت حال یہ ہے
کہ سب ڈویژنل ایجو کیشن آفیسر یا ڈسٹرکٹ ایجو کیشن آفیسر (زنا نہ ) یا مردانہ کی طرف سے اس کمی اور خا می کی رپورٹ اوپر بھیجی جا تی ہے تو کوئی جواب نہیں آتا ‘ انگریزوں کے زما نے میں پشاور اور نو شہرہ یا دوسرے علا قوں میں بھی معائنہ ٓافیسر کی رپورٹوں پر فوری کا روائی ہوتی تھی مجا ز آفیسر ہر رپورٹ کی ایک ایک سطر کو غور سے پڑھتااُس کے قابل اعتراض حصو ں کو خط کشیدہ کر کے الگ کرتا اور اُن پر فوری کاروائی کا حکم دیتا تھا آج اگر کوئی محقق اس دور کے نظم و نسق پر تحقیقی مقا لہ لکھنے پر کام کرے تو اس کو یہ پرانی فائلیں بڑی بڑی الماریوں میں مقفل حالت میں ملیںگی اس وقت محکمہ تعلیم ابتدائی و ثا نوی شعبے سے لیکر اعلیٰ تعلیم کے شعبے تک دو قباحتیں عام ہو چکی ہیں پہلی قباحت یہ ہے کہ پا لیسی بنا تے وقت فیلڈ میں ڈیوٹی دینے والے آفیسروں کی رائے نہیں لی جاتی پرائمری اور ہائی سکول کے لئے پا لیسیاں وہ لو گ بنا تے ہیں جنہیں گزشتہ 30سالوں کے اندر کسی سکول کے اندر جھانکنے کسی استاذ یا ہیڈ ماسٹر یا پر نسپل کے ساتھ دو منٹ کے لئے مختصر تبادلہ خیا لات کا مو قع نہیں ملا یہ 1990کے ما ہ اگست کی بات ہے کہ سوات کے بڑے ہو ٹل میں فیصل آباد سے آنے والے ایک پرو فیسر سے ملاقات ہوئی پر وفیسر تعلیمی نفسیات پر 5کتا بوں کے مصنف تھے
عالمی بینک کے ایک پرا جیکٹ میں کنسلٹنٹ لئے گئے تھے پا لیسی بنانے کےلئے مختلف اضلا ع کا دورہ کر رہے تھے دوران گفتگو معلوم ہوا کہ مو صوف نے کا لا م اور مہوڈ ھنڈ کی سیر کی‘ چترال میں وادی کا لا ش گئے آج ان کے دورے کا آخری دن تھا پا لیسی پیپر لکھ چکے تھے مو صوف نے کوئی سکول نہیں دیکھا محکمہ تعلیم کے کسی اہلکار سے ملا قات نہیں کی اُن کا خیال تھا کہ اس قسم کی ملا قا توں سے پا لیسی پیپر کا مد عا حا صل نہیں ہو گا وہ لو گ اپنی مر ضی لکھنے والے پر تھو پنے کی کوشش کرینگے چنانچہ مدین‘ بلا مبٹ اور چترال کے پرائمری سکول کے لئے فیصل اباد کے ایک غیر متعلقہ شخص نے خوب صورت انگریزی میں پا لیسی تیار کرکے مشی گن یو نیورسٹی سے آئے ہوئے غیر متعلقہ آفیسر کو تھما دی اور وہی ہمارے پرائمر ی سکولوں کی پا لیسی ہے دوسری خا می یہ ہے کہ معائنہ آفیسر کی رپورٹ کو پڑھنے کا رواج ختم ہوا اس لئے معا ئنہ کے لئے جا نے والے حکام کی دلچسپی بھی ختم ہو گئی قرآن کی لا زمی تعلیم کا حکم اس افرا تفری میں کہیں گم ہو گیا ہے ضرورت اس بات کی ہے کہ ہائی سکول سے قاری اور اے ٹی کی 7ہزار آسا میوں کو پرائمری سکولوں میں منتقل کیا جائے اور قرآن کی لازمی تعلیم پر ائمری سکول سے شروع کی جائے ۔