ہاتھی کے خاندان سے تعلق رکھنے والا دودھ دینے والا یہ بہت چھوٹا سا چوہے جتنا جانور 50 برس پہلے غائب ہو جانے کے بعد حال ہی میں افریقہ کے جنگلوں میں دوبارہ دیکھا گیا ہے۔
مقامی سطح پر دیکھے جانے کے باوجود اس لمبی ناک والے چھچھوندر کے بارے میں 50 برس پہلے سائنسی سطح پر معلومات ریکارڈ کی گئی تھیں۔
اس جانور کو قرنِ افریقہ کے ملک جبوتی میں ایک سائنسی تحقیق کے دوران دیکھا گیا ہے۔
لمبی ناک والا ہاتھی کی شکل سے ملتا جلتا یہ چھچوندر، یہ جانور نہ چھچوندر ہے اور نہ ہی ہاتھی، بلکہ اس کا آردورک (افریقہ کا دودھ پلانے والا جانور جو خنزیر سے ملتا ہے)، ہاتھی اور مناتیز (بَحَری گائے، ایک آبی پستان دار جانور) سے کوئی تعلق بنتا ہے۔
ان کی سونڈ جیسی ایک منفرد ناک ہوتی ہے جسے یہ کیڑے مکوڑوں کو کھانے کے لیے استعمال کرتے ہیں۔
دنیا میں چھچھوندر کی تقریباً 20 اقسام ہیں اور صومالیہ کا چھچھوندر (ایلیفینٹولس ریوولی) ان سب میں سب سے زیادہ پُراِسرار جانور ہے، جس کے بارے میں صرف 39 سائنس دانوں نے چند دہائیاں پہلے معلومات جمع کیں اور انھیں میوزیم میں محفوظ کر دیا تھا۔ کیونکہ اس نسل کو سب سے پہلے صرف صومالیہ میں دیکھیا گیا تھا اس لیے اس کا نام صومالی چھچھوندر رکھ دیا گیا تھا۔
امریکہ کے ایک سائنس دان، سٹیون ہیریٹیج، جن کا تعلق ڈرہم کی ڈیوک یونیورسٹی کے لیمور سینٹر سے ہے، وہ قرن افریقہ میں اس ریسرچ کے سفر میں سنہ 2019 سے شامل ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ وہ اس نسل کی 'دوبارہ سے دریافت' پر بہت خوشی ہوئی۔
انھوں نے بتایا کہ ’جب ہم نے اس جانور کی ایک اکڑی ہوئی دم دیکھی تو ہم جان گئے تھے کے ہم نے کوئی بہت ہی خاص جانور دریافت کیا ہے اس پر ہم بہت زیادہ خوش ہوئے اور ہم جھومنے لگے۔‘
یہ جانور خشک پتھروں کے علاقے میں رہتا ہے۔
ان ماہرین نے ایسی رپورٹوں کے بارے میں سنا تھا کہ اس جانور کو صومالیہ میں دیکھا گیا تھا، اور جبوتی کے ایک ماحولیات کے محقق اور اسے محفوظ کرنے والے حسین ریالہ جو اس تحقیق میں شریک تھے، کہتے ہیں کہ انھوں نے اسے پہلے بھی کہیں دیکھا تھا۔
ان کا کہنا ہے کہ اگرچہ جبوتی میں لوگ اس جانور کو معدوم نہیں سمجھتے ہیں، تاہم نئی تحقیق کی وجہ سے صومالی چھچھوندر دوبارہ سے سائنسی تحقیق کا حصہ بن گیا ہے، جو کہ ایک قابلِ قدر بات ہے۔
وہ کہتے ہیں کہ 'جبوتی کے لیے یہ ایک اہم واقعہ ہے جو اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ اس ملک میں اور اس خطے میں کتنا زبردست حیاتیاتی نظام کا تنوّع موجود ہے اور یہ دریافتیں ظاہر کرتی ہے کہ یہاں نئی سائنسی تحقیق کے لیے کتنے زیادہ مواقع ہیں۔'
مونگ پھلی کے مکھن کا جال
اس تحقیقی ٹیم نے بارہ مقامات پر ایک ہزار سے زیادہ جال (ٹریپ) لگائے تھے، جن میں ان جانوروں کو پکڑنے کے لیے انھیں جھانسہ دینے کے لیے مونگ پھلی کے مکھن، دلیا اور خمیر رکھے گئے تھے۔ جبوتی کے چٹانی اور پتھریلے علاقے میں لگائے گئے جال میں سب سے پہلے ایک جانور آ پھنسا۔
انھوں نے اپنی اس تحقیق کے دوران تقریباً 12 چھچھوندر دیکھے اور پہلی مرتبہ سائنسی دستاویزات کے لیے ان ہاتھی نما صومالی چھچھوندروں کے قدرتی ماحول میں رہتے ہوئے ان کی تصویریں اور ویڈیوز بنائی۔
ان تحقیق کاروں کو وہاں کے قدرتی ماحول میں اس مخلوق کے معدوم ہونے کا کوئی خطرہ نظر نہیں آیا کیونکہ یہ خطہ عموماً انسانوں کی کھیتی باڑی یا دیگر ترقیاتی منصوبوں کی رسائی سے دور ہے۔
ان مخلوقات کا بہت بڑی تعداد میں وہاں موجود ہونا ظاہر کرتا ہے کہ وہاں چھچھوندروں کے لیے بھی ایسے ہی سازگار حالات ہوں گے اور ان کی یہ صومالیہ اور جبوتی کے علاوہ شاید ایتھوپیا میں بھی موجود ہو۔
جیبوتی میں بہت ہی بہترین حیاتیاتی نظام کا تنوّع موجود ہے جس کے زیادہ تر حصے پر تاحال کوئی ریسرچ نہیں ہوئی ہے۔
جیبوتی میں بہت ہی بہترین حیاتیاتی نظام کا تنوّع موجود ہے جس کے زیادہ تر حصے پر تاحال کوئی تحقیق نہیں ہوئی ہے۔
گلوبل وائلڈ لائف کنزرویشن نامی ایک خیراتی ادارے کے مطابق صومالی چھچھوندر دنیا کی ان '25 انتہائی مطلوب مخلوقات میں سے ہیں جو گم ہو چکی ہیں۔'
اس ادارے کے رابن مور کہتے ہیں کہ 'عموماً جب ہم کسی گم ہو جانے والی مخلوق کو دوبارہ سے دریافت کرتے ہیں تو ہمیں ایک یا دو ایسی مخلوقات ملتی ہیں اور فوری طور پر ہم انھیں معدوم ہونے سے بچانے کے لیے انھیں محفوظ بنانے کی تگ و دو میں لگ جاتے ہیں۔'
'آج جبکہ کرّہِ ارض میں ایک ہلچل مچی ہوئی ہے، ایسے میں اتنی زبردست مخلوق کا دریافت ہونا ایک اچھی خبر ہے، اور یہ گم ہو جانے والی ڈی وِنٹن گولڈن مول جیسی چھوٹی چھوٹی مخلوقات جو کہ چھچھوندر سے ملتی جلتی ہے کے لیے بھی ایک اچھی امید ہے۔'
نیا معمہ
ڈی این اے کے تجزیوں کے ذریعے معلوم ہوا ہے کہ صومالی چھچھوندر کا کئی ایک دیگر مخلوقات سے بہت قریبی تعلق بنتا ہے جو کہ مراکش اور جنوبی افریقہ جیسے دور دراز خطوں میں پائی جاتی ہیں، اس وجہ سے اب اس چھچھوندر کو مخلوقات کے ایک خاص قسم کے طبقے میں شمار کیا جا رہا ہے۔
اس جانور کی ایک طویل تاریخ میں رشتہ دار اتنے دور دراز خطوں میں پائے جانے کی وجہ سے ماہرین کے لیے یہ ایک نیا معمہ بن گیا ہے۔
ان سائنس دانوں نے آئندہ سنہ 2022 میں اسی خطے میں ایک اور تحقیق کرنے کا منصوبہ بنایا ہے جس میں یہ ان چھچھوندروں پر تحقیق کریں گے جن پر انھوں نے ریڈیو کی لہروں والے آلات نصب کر دیے ہیں تاکہ ان کے اس عرصے میں سفر کے دوران اِن کے رویے اور ماحول کا بھی مطالعہ کیا جا سکے۔
گلوبل وائلڈ لائف کنزرویشن کے کیلسی نیام کہتے ہیں کہ 'صومالی چھچھوندر کے بارے میں یہ جاننا کہ وہ جنگلی زندگی میں ابھی بھی موجود ہے یہ بذاتِ خود ماحول کو محفوظ بنانے کی جانب پہلا قدم ہے۔ اب جب ہم یہ جانتے ہیں کہ یہ موجود ہے تو سائنس دانوں اور ماحول کو محفوظ کرنے والے اس قابل ہو سکیں گے کہ اس بات کو یقینی بنا سکیں کہ یہ دوبارہ غائب نہ ہونے پائے۔'
یہ تحقیق 'پیئر جے' نامی جریدے میں شائع ہوئی ہے۔