اٹلانٹا: پیرو کے جنگلات میں پائی جانے والی چھوٹی سی ’’غلیلی مکڑیوں‘‘ (سلنگ شاٹ اسپائیڈرز) کے بارے میں انکشاف ہوا ہے کہ وہ شکار کرنے کیلیے واقعی میں اپنے جالے کو غلیل کی طرح استعمال کرتی ہیں، خود کو انتہائی تیز رفتاری سے ’فائر‘ کرتی ہیں اور اُڑتے ہوئے شکار کو پکڑ لیتی ہیں۔
یہی نہیں بلکہ ’فائر‘ ہوتے دوران یہ مکڑیاں 1,300 میٹر فی مربع سیکنڈ کی شرح سے اپنی رفتار بڑھاتی ہیں، جو شکار پر حملہ آور ہونے والے تیز رفتار چیتے کے مقابلے میں بھی 100 گنا زیادہ شرح ہے۔
دورانِ پرواز یہ اپنے شکار کی طرف 4 میٹر فی سیکنڈ کی رفتار سے بڑھتی ہیں اور ان کے جسم کو معمول کی قوتِ ثقل (جی فورس) کے مقابلے میں تقریباً 130 گنا زیادہ ثقلی قوت (130G) کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ایک لڑاکا طیارے کا پائلٹ بھی زیادہ سے زیادہ 10G جتنی قوت ہی برداشت کر سکتا ہے۔
ان کا تعلق مکڑیوں کے ’تھیریڈیوسوماٹیڈائی‘‘ (Theridiosomatidae) خاندان سے ہے جس میں شامل مکڑیوں کی جسامت 1.5 ملی میٹر سے لے کر 3.0 ملی میٹر تک ہوتی ہے۔
اپنی چھوٹی جسامت کے باوجود، یہ مکڑیاں اپنے شکار پر بہت تیزی سے پرواز کرتے ہوئے حملہ آور ہونے کیلیے مشہور ہیں۔ لیکن یہ سب کچھ وہ کیسے کرتی ہیں؟ اس بارے میں ماہرین کے پاس صرف مفروضات تھے لیکن حقیقت سے کوئی واقف نہیں تھا۔
یہ جاننے کیلیے جیورجیا انسٹی ٹیوٹ آف ٹیکنالوجی (جیورجیا ٹیک) کے مدراسی نژاد امریکی سائنسداں ڈاکٹر سعد بھملا نے اپنے ساتھیوں کے ہمراہ پیرو کے جنگلات کا رُخ کیا۔ یہ ٹیم ایسے تیز رفتار اور حساس کیمروں سے لیس تھی جو رات کی تاریکی میں بھی دیکھنے کے قابل تھے۔ یہ اس لیے ضروری تھا کیونکہ یہ مکڑیاں رات کے وقت ہوا میں اُڑتے ہوئے مچھروں اور مکھیوں کا شکار کرتی ہیں۔
کئی مہینوں تک ان جنگلات کی خاک چھاننے اور ان مکڑیوں کی فلم بندی کرنے کے بعد وہ واپس امریکا چلے گئے جہاں انہوں نے ان تمام ویڈیوز کو بغور دیکھنا شروع کیا۔
ان ویڈیوز سے یہ بات معلوم ہوئی کہ تھریڈیوسوماٹیڈائی قسم کی مکڑیاں شکار کرنے کیلیے جالا بناتی ہیں لیکن جب انہیں کسی مچھر یا مکڑی کا شکار کرنا ہوتا ہے تو وہ جالے کے بالکل درمیان میں پہنچ جاتی ہیں اور جالے کے پیچھے موجود کسی شاخ یا پتھر پر اپنے جال کا تار پھینکتی ہیں؛ ٹھیک اسی طرح جیسے ’’اسپائیڈر مین‘‘ کرتا ہے۔
مکڑی کا پھینکا ہوا باریک تار اس پتھر یا لکڑی سے چپک جاتا ہے جسے یہ مکڑی واپس کھینچنا شروع کردیتی ہے۔ اس کے ردِعمل میں جالے پر تناؤ بڑھتا ہے اور وہ مخالف سمت میں مڑ کر مخروطی (آئس کریم کون جیسی) شکل میں آنے لگتا ہے…
… اور پھر اچانک، ایک خاص موقعے پر، مکڑی اس تار کو توڑ دیتی ہے اور جالہ بہت تیزی سے اپنی اصل پوزیشن میں واپس آجاتا ہے۔ لیکن اسی دوران یہ جالہ زبردست قوت سے اس مکڑی کو ہوا میں اچھال دیتا ہے اور وہ تیزی سے اڑتی ہوئی اپنے شکار کو جا لیتی ہے۔
صرف چند سیکنڈ میں مکمل ہوجانے والے اس عمل میں مکڑی باقاعدہ اپنے شکار کا نشانہ لیتی ہے اور اسی کے حساب سے اپنے جالے میں خم پیدا کرتی ہے۔
یعنی، کسی نہ کسی طور، مکڑی کو معلوم ہوتا ہے کہ کس سمت میں اور کتنے فاصلے پر موجود شکار کو پکڑنے کیلیے جالے میں کس قدر تناؤ ہونا چاہیے اور اسے کس سمت میں خم دینا چاہیے۔
اس دریافت سے جہاں ایک معما حل ہوا ہے، وہیں اس سوال نے بھی جنم لیا ہے کہ اس قدر ننھی منی جسامت والی ایک معمولی سی مکڑی اتنے منظم انداز میں، غیر معمولی مہارت کے ساتھ، اپنے شکار کا نشانہ لینے کے قابل ہوئی ہوگی؟