فتح استنبول کے وقت عثمانیوں نے جو توپ استعمال کی وہ اس وقت کی دنیا کی سب سے بڑی توپ تھی۔
اگرچہ 1453 تک جنگوں میں بارود اور گولوں کا استعمال شروع ہو چکا تھا لیکن اسے ابھی تک عثمانیوں کے تیار کردہ اسلحے جتنے بڑے اسلحے کے ساتھ استعمال نہیں کیا گیا تھا۔
جب عثمانی فوج نے استنبول کا محاصرہ کیا تو بازنطینیوں کے پاس بھی ایسا اسلحہ موجود تھا جس میں سیاہ بارود استعمال کیا جاتا تھا لیکن فائر کے وقت اس اسلحے کے پیچھے کی طرف جھٹکا کھانے سے ان کی اپنی فصیلوں کو زیادہ نقصان پہنچتا تھا۔
دوسری طرف عثمانی فوج کی توپیں 8 میٹر لمبی تھیں اور ان کی 75 سینٹی میٹر قطر کی نال 544 کلو بارود فائر کرنے کی صلاحیت رکھتی تھیں۔ نال کی بھرائی میں تین گھنٹے لگتے تھے جس کی وجہ سے دن میں صرف پانچ چھ دفعہ ہی فائر کیا جا سکتا تھا۔ توپ اس قدر بھاری تھی کہ اس کے ہنگیرین خالق نے اسے دو حصوں کی شکل میں تیار کیا تھا۔
اس طرح اسے اپنے دور کے مقابلے میں نہایت ماڈرن شکل میں پیچوں والے سسٹم کے ساتھ استعمال کیا جاتا تھا۔ فصیلوں پر جس جگہ اس کا فائر لگتا اس کی مرمت میں بازنطینی معماروں کو دن رات کام کر کے ایک ہفتے کا عرصہ لگتا تھا۔ اس توپ کو فتح استنبول سے 354 سال بعد 1807 میں بھی استعمال کیا گیا۔ آبنائے چناق قلعے میں زبردستی داخل ہونے کی کوشش کرنے والے برطانوی بحری جہازوں پر اس توپ سے فائر کیا گیا۔
فائر سے جہازوں کو جو نقصان پہنچا اس نے برطانوی بیڑے کو پس قدمی پر مجبور کر دیا تھا۔ بعد ازاں اس واقعے کی یاد میں 1870 میں سلطان عبدالعزیز نے اس توپ کا ایک ماڈل انگریزوں کو تحفے میں پیش کیا جسے فورٹ نیلسن توپچی عجائب گھر میں رکھا گیا ہے۔