بڑا فیصلہ اور دبنگ اعلا ن آگیا ہے متحدہ عرب امارات نے اسرائیل کے ساتھ معاہدہ کرکے اس کو تسلیم کیا ہے ‘خبر آنے کے بعد دنیا کے مختلف ملکوں سے ردعمل بھی سامنے آیا ہے فلسطینی اتھارٹی نے مذمت کی امریکہ نے خیر مقدم کیا‘ یہ ایک بڑا فیصلہ ہے اُمید ہے کہ نومبر کے امریکی انتخا بات سے پہلے بحرین اور کویت سمیت چند دیگر مما لک بھی اسرائیل کے ساتھ براہ راست سفارتی تعلقات استوار کرلیں گے ‘اسرائیل کی تاریخ 1917سے شروع ہوتی ہے جب برطانیہ کی سرپرستی میں اس ریاست کی داغ بیل ڈالی گئی اور امریکہ نے بعد ازاں جس طرح اس نوزائدہ سلطنت کو سنبھالا دیا وہ دنیا پر ظاہر ہے 1967ءمیں عرب اسرائیل جنگ ہوئی مصر اور اردن کے کچھ علا قوں پر دشمن نے قبضہ کیا گو لان کی پہاڑیوں اور دریائے اردن کے مغربی کنارے پر واقع بستیوں کو اسرائیل سے آزاد کرانے کے لئے طویل مذاکرات ہوئے الفتح تنظیم نے چھا پہ مار جنگ لڑی الفتح کی رکن لیلیٰ خالد نے جہازوں کو اغوا کر کے دنیا کے بڑے ممالک کی توجہ فلسطینی مسئلے کی طرف باربار مبذول کی اس طرح طویل جدو جہد کے بعد 1992ءکے اوسلو معاہدے کے تحت فلسطینی اتھارٹی کے نام سے یاسر عرفات اور ان کے ساتھیوں کو آزاد فلسطینی ریاست کی حکومت مل گئی 1979ءمیں مصر نے اسرائیل کو تسلیم کیا 1994ءمیں اردن نے بھی اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات استوار کئے تین اہم معا ملا ت زیر التواتھے پہلا معاملہ یہ تھا کہ بیت المقدس کے شہر کو فلسطینی اتھارٹی کا دارلخلافہ بنا یا جائے دوسرا معا ملہ یہ تھا کہ لبنان ، کویت اور دیگر ملکوں میں پنا ہ گزین ہونے والے فلسطینیوں کو واپس ان کے گھروں میں بسا یا جائے ۔
تیسرا معاملہ یہ تھا کہ فلسطین میں یہو دیوں کی نئی بستیوں کے قیام پر پا بندی لگائی جائے‘ معروضی حا لات اس کی طرف اشارہ کر تے ہیں امریکی انتخا بات میں یہو دیوں کی دولت کا م آتی ہے اسلئے اسرائیل کی حکومت کا تحفظ اور فلسطینیوں کی بیخ کنی کو دونوں پار ٹیاں اپنے منشور کا حصہ بنا تی ہیں انتخا بی مہم میں اسرائیل بنیادی مو ضو عات میں شا مل ہو تا ہے امریکہ نے اسرائیل کو مشرق وسطیٰ میں ایٹمی طاقت بنانے کےلئے خصو صی قانون سازی کی تھی اور 1962ءمیں پینٹا گان نے اسرائیل کو ایٹمی طاقت کا درجہ دیدیا تھا ‘ امریکہ کا مو قف یہ ہے کہ دشمنوں میں گھر ے ہوئے اسرائیل کو اپنی بقا کے لئے ایٹمی طا قت بننے کی ضرورت تھی اور اسکو علا قائی سفارت کاری میں سپر پاور کا درجہ ملنا چاہئے متحدہ عرب امارات کے ساتھ اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو نے سفارتی تعلقات قائم کرنے کے لئے جس معا ہدے پر دستخط کئے اس میں بیت المقدس کا کوئی ذکر نہیں کیونکہ اسرائیل نے پہلے ہی اس کو اپنا دارالخلا فہ بنا نے کا اعلان کیا ہو ا ہے فلسطینی اتھارٹی کے مستقل اور پناہ گزینوں کی وطن واپسی کا ذکر نہیں نئی یہو دی بستیوں کے حوالے سے اس قدر لکھا گیا ہے کہ نئی بستیوں کے قیام کو ملتوی یا موخر کیا جائے گا 1990ءمیں آپریشن ڈیزرٹ سٹارم کے نام سے عراق کے خلا ف اپنی جنگ میں امریکہ نے خلیج عرب کے 6ملکوں میں فو جی اڈے قائم کئے تو غیر جانبدار مبصرین نے پیش گوئی کی تھی کہ اب عربوں کے سینے پر مو نگ دلنے کا وقت آگیا اور جو حالات اب بنتے نظر آرہے ہیں تو لگتا ہے کہ وہ پیش گوئی پوری ہونے لگی ہے۔