تشدد اور جرائم میں خطرناک اضافہ

تشدد منفی رجحانات اور جرائم انسانی فطرت اور نظام حیات کا حصہ ہے تاہم جب یہ عناصر حد سے بڑھ جائےںیا اخلاقی جرائم میں غیر معمولی اضافہ ہو جائے تو ان پر قابو پانے کیلئے معاشرے کے ذمہ دار طبقوں اور ریاستی اداروں کو ترجیحی اور ہنگامی بنیادوں پر حرکت میں آنا پڑتا ہے مشاہدے میں آیا ہے کہ سال2019-20 کے دوران جہاں پاکستان بالخصوص خیبرپختونخوا میں عام جرائم کی شرح میں اضافہ ہوا ہے وہاں اخلاقی جرائم میں اس حد تک تشویشناک اضافہ دیکھنے کو مل رہا ہے کہ روز بعض ایسے واقعات سامنے آتے ہیں کہ انسان کے رونگٹھے کھڑے ہو جاتے ہیں لوگوں کا انسانیت‘ مشرقی روایات اور جان و مال کی حفاظت کرنے والے اداروں پر سے اعتماد اٹھ جاتا ہے المیہ اور خطرناک پہلو یہ ہے کہ اب قریبی رشتہ دار جسمانی اور جنسی تشدد کے واقعات میں سب سے زیادہ ملوث پائے جاتے ہیں اسی کا نتیجہ ہے کہ بچوں‘ بچیوں اور خواتین کے خلاف جرائم اس نہج پر پہنچ گئے ہیں کہ کوئی بھی خود کو محفوظ نہیں سمجھ رہا اور کسی پر بھی اعتماد نہیں کیا جا سکتا‘ ایک دستیاب ڈیٹا کے مطابق خیبرپختونخوا میں گزشتہ18ماہ کے دوران 285 بچوں اور بچیوں کے ساتھ جسمانی اور جنسی زیادتی کی گئی افسوسناک امر یہ ہے کہ جن کیسز کی تفصیلات سامنے آئی ہیں اسکے مطابق زیادتی کے ان واقعات میں55 فیصد رشتہ دار یا عزیز ملوث پائے گئے 60 فیصد واقعات پشاور‘ نوشہرہ اور مردان میں ہوئے حالانکہ ان شہروں میں نہ صرف یہ کہ متعلقہ ادارے کافی فعال ہیں بلکہ شرح تعلیم بھی زیادہ ہے ان18ماہ کے دوران7 بچوں کو زیادتی کے بعد قتل بھی کیاگیا حال ہی میں چارسدہ کی معصوم بچی زینب کا قتل اور کیس اسکی سب سے بدترین مثال ہے جن کی عمر2 سال سے بھی کم بتائی جارہی ہے اور وزیر اعلیٰ نے اس واقعے کا نوٹس لیکر صورتحال پر تشویش کا اظہار کیا ہے شرم کی بات یہ ہے کہ 2019 کے دوران جنسی درندگی کی جو تفصیلات سامنے آئی ہیں اسکے مطابق جن185 بچوں کو نشانہ بنایاگیا ان میں50 لڑکیاں اور 135 لڑکے شامل ہیں یہ اس جانب اشارہ ہے کہ خیبرپختونخوا کی جن اسلامی اور پشتون روایات پر ہم فخر کرتے آتے ہیں یا تو وہ دم توڑ گئی ہیں یابنیادی تربیت اور خاندانی نظام میں تباہ کن کمزوریاں اور لا پرواہی شامل ہوگئی ہیں صوبے میں رجسٹرڈ کیسز کے مطابق سال2020 کے ابتدائی چھ ماہ کے دوران 95 بچوں اور بچیوں کے ساتھ زیادتی کی گئی جبکہ70 فیصد واقعات شہروں اور30فیصد دیہاتی علاقوں میں ہوئے گزشتہ9ماہ کے دوران صرف پشاور میں 38 خواتین کو زیادتی کا نشانہ بنایا گیا جو کہ اس حوالے سے بھی انتہائی تشویشناک بات ہے کہ بیشتر ملزمان گرفتار کئے گئے ان کے کیسز زیر سماعت ہیں اور متعلقہ اداروں کی کارکردگی دوسرے صوبوں کے مقابلے میں بہت بہتر رہی ہے۔ یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ ان چند مہینوں کے دوران چھ بچوں کو تاوان جبکہ12کو والدین کی لین دین کے تنازعات کے سبب اغواءبھی کیاگیا قتل کے واقعات کی شرح اور دوسرے جرائم میں بھی اسی تناسب سے اضافہ دیکھنے کو ملا ہے تاہم اخلاقی اور جنسی جرائم کا یہ پہلو اور بھی خطرناک ہے کہ جن ملزمان کو مختلف کیسز میں گرفتار کیاگیا ایک رپورٹ کے مطابق ان کی عمر میں15سے20 سال کے درمیان ہیں اس کا مطلب یہ ہے کہ نئی نسل ہی بوجوہ اس قسم کے جرائم کی بھینٹ چڑھ گئی ہے اس رجحان کی بڑی وجہ نفسیاتی ماہرین انٹرنیٹ کا غیر معمولی استعمال‘ والدین‘ اساتذہ کی لاپرواہی اور معاشرے میں موجود گھٹن ڈپریشن بتاتے ہیں‘ مذہب اور اپنی روایات اور ثقافت سے نئی نسل اور لوگوں کی دوری بھی ان جرائم کا ایک بنیادی سبب ہے جبکہ تعلیم و تربیت میں موجود خامیاں بھی ایک وجہ ہے اس صورتحال کو دیکھتے ہوئے ضرورت اس بات کی ہے کہ والدین‘ علمائ‘ اساتذہ‘ میڈیا اور متعلقہ ادارے حالات اور خوف کو ہنگامی اور عملی بنیادوں پر نوٹس لیکر ہماری سوسائٹی اور نئی نسل کے تحفظ کو ممکن بنائیں۔