یہ بات سب کو معلوم ہے کہ قدرت نے خیبر پختونخوا کو بے پناہ قدرتی وسائل‘ معدنیات‘ جنگلات ‘ دریاﺅں اور حسین ترین علاقوں کے علاوہ شاندار قومی ورثے سے نوازا ہے جنوبی اور وسط ایشیا کے سنگم پر واقع اس پٹی کا نہ صرف یہ کہ ماضی بہت شانداررہا ہے بلکہ یہ علاقہ مختلف تہذیبوں اور ثقافتی تبدیلوں کا مرکز بھی رہا ہے اگر ایک طرف خیبرپختونخوا میں ایک امریکی سروے کے مطابق تقریباً3 ٹریلین ڈالرز کے قدرتی اور معدنی وسائل موجود ہیں تو دوسری جانب اس صوبے کو قدرت نے ان تمام رعنائیوں اور حسن سے سخاوت کے ساتھ نوازا ہے جو کہ بہترین سیاحت کے فروغ کیلئے ضروری سمجھی جاتی ہے دنیا میں تقریباً50 ممالک ایسے ہیں جن کی معیشت کا 60 فیصد انحصار سیاحت پر ہے ان میں سنٹرل ایشیا اور جنوبی ایشیا کے تقریباً10ممالک بھی شامل ہیں یہ اس جانب اشارہ ہے کہ جدید معاشی ڈھانچے اور نظام میں ثقافت کی طرح سیاحت کو بھی ایک کامیاب انڈسٹری کا مقام اور حیثیت حاصل ہے اور اگر اس کے فروغ پر جدید طریقوں سے توجہ دی جائے تو مقامی آبادی کے علاوہ حکومت کو ہر برس اربوں کھربوں کا فائدہ اور ریونیو ملنا کوئی مشکل کام نہیں ہے ایک رپورٹ کے مطابق خیبرپختونخوا کی حکومت نے وزیراعظم عمران خان کی خصوص دلچسپی پر سال 2014-15 ءژ کے دوران سیاحت کے فروغ کیلئے صوبے میں175 ایسے مقامات کی نشاندہی کی تھی جن کو سہولیات دیکر ہر برس کم از کم200ارب کی خطیر رقم کمائی جا سکتی تھی ان علاقوں یا مقامات میں30 سے زائد صوبے کے قبائلی اضلاع میں واقع ہیں جو کہ تاریخی اور ثقافتی پس منظر رکھنے کے علاوہ اپنی قدرتی خوبصورتی میں بھی مثال نہیں رکھتے اگر ایک طرف صوبہ پختونخوا کے شمالی علاقوں خصوصاً ملاکنڈ اور ہزارہ ڈویژن میں سیاحت کیلئے بے شمار مقامات موجود ہیں اور ملاکنڈ ڈویژن بدھ مت کے تاریخی ورثے کے علاوہ بعض دیگر تہذیبوں کابھی گڑھ رہا ہے تو دوسری طرف قبائلی اضلاع بھی لاتعداد تاریخی مراکز کے علاوہ خوبصورتی میں بھی کمال رکھتے ہیں اگر ملاکنڈ اور ہزارہ ڈویژن میں مرغزار‘ مالم جبہ‘ میاندم‘ بحرین اور کالام سمیت سندور‘ کمراٹ‘ گلیات‘ خانپور‘ تربیلا اور ایبٹ آباد جیسے علاقے اور سیاحتی مراکز موجود ہیں توخیبر میں خیبر پاس‘ طورخم‘ کرم میں پارا چنار‘ صدہ‘ وزیرستان‘ رزمک‘ انگوراڈہ‘ میر علی اور دوسرے قبائلی اضلاع میں متعدد ایسے مقامات موجود ہیں جو کہ تاریخی آثار کے علاوہ قدرتی حسن کی ناقابل یقینی رعنائیوں سے بھی مالامال ہیں اس ضمن میں ہم ضلع خیبرکی تیراہ وادی کی مثال دے سکتے ہیں جو کہ بلاشبہ جنت کا ٹکڑا کہلایا جاسکتا ہے یہ علاقے دہشت گردی اور اسکے ردعمل میں فوجی کاروائیوں سے ماضی میں بہت متاثر ہوئے ہیں تاہم اب چونکہ یہ علاقے صوبہ پختونخوامیں شامل ہوگئے ہیں ان کےلئے لاتعداد ترقیاتی منصوبے جاری ہیںاور امن و امان کی صورتحال بھی کافی بہتر ہوگئی ہے اسلئے یہ امکان بہت بڑھ گیا ہے کہ یہاں پر سیاحت اور ثقافت کے فروغ پر خصوصی توجہ دیکر اس پٹی کو دنیا کے سامنے ایک مثالی ماڈل کے طور پر پیش کیا جائے اور عوام کی خوشحالی اور علاقے کی ترقی کو بھی یقینی بنایا جائے‘ صوبائی حکومت نے سال2020-21ءکے بجٹ میں سیاحت کے فروغ کیلئے پہلے سے زیادہ بجٹ رکھا ہے جبکہ ٹورازم پولیس کے نام سے ایک فورس کا بھی اعلان کر رکھا ہے جس میں بھرتیاں بھی ہوئی ہیں تاکہ سیاحوں کو تحفظ کے علاوہ دوسری درکار سہولیات بھی فراہم کی جاسکیں اسی کا نتیجہ ہے کہ 2020ءکو دو عیدین کے دوران ایک اندازے کے مطابق تقریباً25لاکھ سیاحوں نے صرف سوات جبکہ8لاکھ نے گلیات کا رخ کیا جس کے نتیجے میں ان علاقوں کو اربوں کی آمدن ہوئی خیبرپختونخوا چونکہ مختلف مذاہب کامرکز بھی رہاہے اسلئے حکومت نے مذہبی سیاحت کے نام سے بھی ایک شعبہ قائم کیا ہے تاکہ بدھ مت سمیت دوسرے مذاہب سے تعلق رکھنے والے غیر ملکی سیاحوں اور عقیدت مندوں کو لاتعداد تاریخی مقامات کی جانب راغب کیا جاسکے کیونکہ یہ خطہ بعض دوسری تہذیبوں کے علاوہ گندھارا تہذیب کا بھی مرکز رہا ہے صوبے کے عوام مہمان نوازی اور مہمانوں کو ذاتی حیثیت سے تحفظ دینے کی شہرت رکھتے ہیں اسلئے ضرورت اس بات کی ہے کہ حکومت سیاحت کیلئے درکار سہولیات کی فراہمی پر خصوصی توجہ دیکر یہاں کے عوام کے ساتھ ہونیوالی ماضی کی زیادتیوں کی تلافی کے علاوہ صوبے اور ملک کی ترقی کاایک نیا دروازہ اور راستہ بھی کھول دے۔