برلن: یورپی ماہرین نے بایوپلاسٹک سے تیار کردہ درجنوں مصنوعات کا تجزیہ کرنے کے بعد انکشاف کیا ہے کہ عام خیال کے برعکس، بایوپلاسٹک میں بھی اتنے ہی زہریلے، مضرِ صحت اور ماحول دشمن مرکبات پائے جاتے ہیں جتنے عام اور روایتی پلاسٹک میں موجود ہوتے ہیں۔
واضح رہے کہ ’’بایوپلاسٹک‘‘ (Bioplastic) سے مراد ایسا کوئی بھی پلاسٹک ہوتا ہے جو جانداروں کی باقیات مثلاً پودوں کے پتّوں، لکڑی کے برادے، پھلوں کے گودے اور سبزیوں کے چھلکے وغیرہ کو بازیافت (ری سائیکل) کرکے تیار کیا جاتا ہے۔
عام طور پر دعوی کیا جاتا ہے کہ بایوپلاسٹک میں کسی قسم کے زہریلے یا ماحول دشمن مرکبات شامل نہیں ہوتے اور یہ صحت و ماحول، دونوں کےلیے ’’بےضرر‘‘ ہوتا ہے؛ جبکہ یہ تین سے چھ مہینوں میں خود بخود گل کر ختم ہوجاتا ہے اور ماحولیاتی مسائل کو جنم نہیں دیتا۔
گوئٹے یونیورسٹی جرمنی کے سائنسدانوں کی سربراہی میں کی گئی اس تحقیق میں تقریباً پورے یورپ میں بایوپلاسٹک سے تیار کردہ 43 اقسام کی مصنوعات کے نمونے جمع کیے گئے اور ان کا محتاط کیمیائی تجزیہ بھی کیا گیا۔ ان نمونوں میں بوتلیں، ڈھکنے، چمچے، کانٹے، پیالے اور اسی قسم کی دوسری عام مصنوعات شامل تھیں۔
ان میں سے بایوپلاسٹک کی 80 فیصد مصنوعات میں 1000 سے زیادہ مختلف کیمیائی مرکبات شامل تھے جبکہ بعض نمونوں میں یہ تعداد 20,000 سے بھی زیادہ تھی۔ البتہ اس سے بھی زیادہ تشویشناک دریافت یہ تھی کہ ان میں سے 75 فیصد مرکبات وہ تھے جنہیں عالمی سطح پر زہریلا اور مضرِ صحت قرار دیا جاچکا ہے۔
بایوپلاسٹک میں زہریلے مرکبات کی یہ شرح تقریباً اتنی ہی ہے جتنی عام روایتی پلاسٹک میں ہوتی ہے۔ تاہم یہ سوال ابھی اپنی جگہ موجود ہے کہ ہر نمونے میں یہ مقدار کتنی ہے؛ اور کیا یہ مقدار اتنی ہے کہ انسانی صحت کےلیے نقصان دہ ثابت ہو۔ یہ جاننے کےلیے مزید تحقیق کی ضرورت پر زور دیا گیا ہے۔
اس تحقیق کی تفصیلات تحقیقی مجلے ’’اینوائرونمنٹ ریسرچ‘‘ کے تازہ ترین شمارے میں آن لائن شائع ہوئی ہیں۔