گزشتہ روز مشیر خزانہ حفیظ شیخ کی زیر صدارت ای سی سی اجلاس میں حکومت کی تذبذب کی پالیسی کا تسلسل قائم رہا اور ٹیلی کوم سیکٹر کو ٹیکس چھوٹ دینے کے بارے میں کوئی فیصلہ نہیں ہوسکا، مسئلے کے حل کے لیے حسب روایت ایک اور کمیٹی قائم کردی گئی۔ مئی سے لے کر اب تک یہ تیسری ذیلی کمیٹی ہے جو اس معاملے پر بنائی گئی ہے۔
وزارت آئی ٹی نے ای سی سی سے تیسری بار فیصلہ لینے کی درخواست کی تھی جس کے جواب میں تیسری بار کمیٹی قائم کردی گئی۔
وزارت آئی ٹی ٹیلی کوم کمپنیوں کے لیے 12.5 فیصد ودہولڈنگ ٹیکس کے خاتمے، کم از کم ٹیکس8 سے 3 فیصد کرنے، فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی16 فیصد تک محدود کرنے، سم کارڈ ایکٹیویشن کے 250 روپے چارجز ختم کرنے اور اضافی کسٹم ڈیوٹی 3 فیصد کرنے کے سلسلے میں اپنے تمام آپشن اور حتمی پوزیشن ای سی سی کے سامنے رکھ چکی ہے، مگر ای سی سی نے اس اجلاس میں بھی فیصلہ کرنے کے بجائے کمیٹی قائم کردی۔
حکومت کی بروقت فیصلے نہ کرسکنے کی وجہ سے معیشت اور عوام کو بھاری نقصان پہنچ جارہا ہے۔ جیسا کہ گندم اور چینی کی درآمد سے متعلق ایک نیوز رپورٹ میں بتایا گیا کہ فیصلے کرنے میں تاخیر کی وجہ سے 404 بلین روپے کا نقصان ہوا۔
اقتصادی رابطہ کمیٹی کے اجلاس میں دیگر فیصلے کیے گئے جن میں رحمان گیس فیلڈ سے ایس ایس جی سی ایل کو اضافی گیس فراہمی کی منظوری دی گئی جس کے تحت ایس ایس جی سی ایل کو اضافی 38مکعب ملین کیوبک فٹ گیس فراہم کی جائے گی۔ اجلاس میں ایران سے 104میگا واٹ بجلی کی خریداری کے معاہدے میں ایک سال کی توسیع کی منظوری دی گئی۔
ای سی سی نے وزارت دفاع کیلیے 10کروڑ 90لاکھ روپے کی تکنیکی گرانٹ کی منظوری دیدی۔ اجلاس میں کراچی بندرگاہ پر کھڑے افغان کنٹینرز پر لیٹ چارجز معاف کرنے کا معاملہ زیر غور آیا، نجی ٹرمینل آپریٹرز نے 75فیصد چارجز معاف کرنے سے انکار کر دیا ہے۔
ای سی سی نے16ارب کے لیٹ چارجز میں سے 12ارب معاف کرنیکی تجویز کرتے ہوئے معاملہ مذاکراتی کمیٹی کے سپرد کر دیا۔ کورونا کی وجہ سے افغان کارگو کراچی سمیت بندرگاہ پر پڑا ہے۔