افغان دارلحکومت کابل کودہشت گردوںنے گزشتہ روز ایک بار پھر اس وقت بدترین حملے کا نشانہ بنایا جب کابل یونیورسٹی کے ایک حصے میں سٹوڈنٹس ایک ایرانی کتب میلے میں شریک تھے۔ تین حملہ آوروں نے یونیورسٹی میں گھس کر کتب میلے پر اندھا دھندفائرنگ شروع کردی جبکہ ایک نے آخر میںخود کودھماکے سے اُڑا دیاجس کے نتیجے میں طلباءاور طالبات سمیت 26افراد جاں بحق جبکہ تیس زخمی ہوگئے۔ اس واقعے نے امن پسند حلقوں خصوصاً والدین کو ذہنی اور جذباتی طور پر ہلا کررکھ دیا کیونکہ بہت سے لوگوں کے ذہنوں میں سانحہ اے پی ایس کا افسوسناک منظر گھومنے لگا جسکے دوران ایسی ہی ایک کاروائی کے دوران سو سے زائد معصوم بچوں کو نشانہ بنایاگیا تھا۔کابل حملہ سے قبل پشاور میں موجود ایک مدرسے کو بم حملے کا نشانہ بنایا گیا جس میں درجن بھر طلبہ نشانہ بنے اسلئے کابل واقعے نے جہاں عام لوگوں کو تشویش میں مبتلا کیا وہاں اس تاثر یا خدشے کو بھی تقویت ملی کہ خطے بالخصوص افغانستان کی بدلتی صورتحال کے تناظر میں اس قسم کے حملوں یا سانحات کا ایک نیا سلسلہ شروع ہو سکتا ہے تاکہ انٹرا افغان ڈائیلاگ کے امکانات کو کم کرکے ان قوتوں کے ذاتی مفادات کا تحفظ کیا جاسکے جو کہ افغانستان میں جنگ کاخاتمہ نہیںچاہتیں۔ ماہرین کا خیال ہے کہ اس قسم کے حملوں میں جہاں ایک طرف بعض امن دشمن قوتیں براہ راست ملوث ہیں وہاں افغان حکومت میں موجود طالبان مخالف عہدیداراں بھی اس گیم کاحصہ ہیں اور وہ انٹرا افغان ڈائیلاگ کے جاری عمل کو سبوتاژ اور ناکام بنانا چاہ رہے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ کابل حملے کے فوراً بعد شہر میں بعض ایسے بینرز لگائے گئے جن میں دوحہ مذاکراتی عمل کے خلاف نعرے درج تھے۔ کہا گیا کہ یہ بینرز پہلے سے تیار کئے گئے تھے۔جو اس جانب اشارہ ہے کہ بعض طاقتور افغان حلقے بھی اس گیم میں برابر کے شریک ہیں اور ملک میں پراکیسزکا نیا سلسلہ شروع کیا گیا ہے۔ گزشتہ روز کی دوسری بڑی خبر امریکہ میںسابق نائب صدر جو بائیڈن کے ہاتھوں ٹرمپ کی شکست کاغیرمتوقع واقعہ ہے جس کے بعد پاور کاریڈورز میں یہ بحث پھر چل نکلی کہ اس سیاسی او ر حکومتی تبدیلی کے افغان مسئلے کے حل کی کوششوں پر کیا اثرات مرتب ہوں گے۔ مسٹر بائیڈن اگر اقتدار میں آتے ہیں تو ماہرین کا خیال ہے کہ خطے میں امریکی پالیسی کااز سر نو جائزہ لیا جائیگا۔ کیونکہ مسٹر بائیڈن نہ صرف افغان وار کے ڈیزائنرز میںسے ہیں بلکہ افغانستان کے بارے میں ان کارویہ ماضی میں غیر معمولی جارحانہ بھی رہا ہے۔ وہ ماضی میںمتعدد بار آن دی ریکارڈ کہہ چکے ہیں کہ امریکہ کو اپنی فورسز کا بے جااستعمال کرنے کی بجائے پاکستان جیسے اتحادیوں سے کام لینا چاہئے تھا جبکہ ان کایہ موقف بعد میں صدر ٹرمپ نے بھی پالیسی کاحصہ بنایا کہ امریکہ کو افغانستان سمیت کسی بھی ملک میں پولیس مین کا کردار ادا نہیں کرنا چاہئے۔ کچھ عرصہ قبل بائیڈن نے ایک انٹرویو میں افغانستان کو ایک ناقابل اصلاح ملک قرار دےکر یہاں تک کہا کہ افغانستان نہ تو کوئی ملک ہے اور نہ ہی ایک قوم اس لئے یہ تقسیم بھی ہوسکتا ہے اور یہ کہ امریکہ کو اس کو اس کو اسکے حال پر چھوڑدیناچاہئے۔ اس قسم کے بیانات سے یہ اندازہ بخوبی لگایا جاسکتا ہے کہ اگر وہ صدر بنتے ہیں تو افغان مسئلہ مزید پیچیدہ بھی ہوسکتا ہے اور مزید کئی علاقائی تبدیلیاں بھی متوقع ہیں۔ اس صورتحال کو خطے کے حالات کے تناظر میں سنجیدگی کےساتھ لینے کی ضرورت ہے کیونکہ افغانستان میں امن سے پورے خطے اور خاص طورپر پاکستان کا امن وابستہ ہے اسلئے پاکستان افغانستان میں قیام امن کےلئے پرخلوص اور بھرپور کوششیں کرتا رہا ہے اور ان کے نتائج بھی سامنے آنے لگے ہیںجنہیں سبوتاژ کرنےکی کوششیں ہورہی ہیں۔