اس بحث سے قطع نظر کہ وفاقی وزیر داخلہ اعجاز شاہ نے اے این پی کے بعض لیڈروں اور شہداءکے بارے میں بات کس پیرائے اور پس منظر میں کہی خواہش آئند امر یہ ہے کہ وہ وزیر دفاع پرویز خٹک کے ہمراہ گزشتہ روز باچا خان مرکز خود چل کر آگئے اور انہوں نے پارٹی لیڈروں کی موجودگی میں اپنے بیان کی وضاحت کرکے سیاسی کشیدگی کم کرکے جاری صورتحال میں ایک اچھی مثال قائم کرلی اے این پی کے لیڈروں اور کارکنوں نے بھی صوبے کی روایت کے مطابق دونوں وزراءکا نہ صرف استقبال کیا بلکہ ان کی معذرت قبول کرکے ان کی مہمان داری بھی کی اس سے قبل بھی اعجاز شاہ ایک اخباری بیان میں یہ کہہ کر اپنی بات کی وضاحت کرچکے تھے کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں اے این پی نے بہت زیادہ قربانیاں دی ہیں تاہم پارٹی کو انکے سابقہ بیان سے اتنا دکھ پہنچا تھا کہ اعلیٰ ترین قیادت نے ردعمل میں گیارہ نومبر کو اسلام آباد کی جانب احتجاجی مارچ کا اعلان کررکھا تھا اور اسکی تیاری ہو رہی تھی کہ دونوں وزراءنے خود باچاخان مرکز آکر ایک اچھی مثال قائم کرتے ہوئے کشیدگی کو آگے بڑھنے نہیں دیا اس دوطرفہ عمل کو ان عوامی اور سیاسی حلقوں نے بہت سراہا جو کہ ملک میں سیاسی مخالفین کے درمیان مکاملہ اور شائستگی پر مبنی رویہ اپنانے کے خواہشمند ہیں حالیہ سیاسی تاریخ میں ہمیں زیر بحث اقدام کی مثال نہیں ملتی اور اسکی ایک بڑی وجہ شاید یہ ہے کہ مجموعی طورپر ہمارا معاشرہ تلخ نوائی اور تشدد کاشکار ہو چکا ہے اور اسکی بڑی مثال حکومتی وزراءاور اپوزیشن کے وہ بیانات اور الزامات میں جو ہ پی ڈی ایم کے قیام اور جلسوں کے بعد روزانہ کی بنیاد پر سننے اور پڑھنے کو مل رہے ہیں سیاسی مخالفت کو جمہوریت کا حسن کہا جاتا ہے اور نظریات اور دلائل کی بنیادپر اگر اس کلچر کو آگے بڑھایا جائے تو اس سے جمہوریت مضبوط ہوتی ہے تاہم بعض دیگر ممالک کی طرح ہمارا بھی ایک بڑا المیہ یہ رہا ہے کہ بعض اوقات ہمارے لیڈرز سیاسی مخالفت میں ذاتیات پر اتر آتے ہیں جسکا نتیجہ غیر ضروری کشیدگی کی شکل میں نکل آتا ہے ماضی میں مسلم لیگ ن نے پیپلز پارٹی کے خلاف سیاسی مخالفت کی بجائے ذاتیات پر مبنی رویہ اپنایا تو اس پارٹی نے محترمہ بے نظیر بھٹو کی کردار کشی سے بھی گریز نہیں کیا یہی رویہ وزیراعظم عمران خان اور ان کی سابقہ اہلیہ جمائما خان کے بارے میں بھی اپنایا گیاتحریک انصاف2018 کی انتخابی مہم میں اتری تو اس نے بھی ردعمل میں یہی طریقہ استعمال کیا جسکا نتیجہ یہ نکلا کہ دوبڑی پارٹیوں کی نہ صرف دوریاں بڑھ گئیں بلکہ حکومتوں کے قیام کے بعد اسکے منفی اثرات نے سماجی سطح پر بھی پورے ملک کو اپنی لپیٹ میں لیا اے این پی کے بارے میں عمران خان یا انکی حکومت کا مجموعی رویہ دوسری پارٹیوں کے مقابلے میں کافی مثبت اور بہتر رہا ہے تاہم ان کے برعکس روزاول سے اے این پی عمران خان اور انکی پارٹی پر مسلسل حملہ آور ہوتی رہی ہے ‘ بہرحال دو وفاقی وزراءکی جس طریقے سے باچا خان مرکز پشاور میں مہمان نوازی کی گئی اس سے جہاں دونوں پارٹیوں کی دوریاں اور تلخیاں کم ہونے میں بہت مدد ملے گی وہاں اے این پی کی قدکاٹھ میںاضافہ بھی ہوا ہے اس وقت پی ڈی ایم کے اجتماعات بعض سیاسی بیانات اور گلگت بلتستان کے انتخابی جلسوں سے اپوزیشن اور حکومت کے درمیان جو تلخی دیکھی جا سکتی ہے اس پر ملک کے عوام اور سنجیدہ حلقے کافی پریشان ہیں کیونکہ عوام اپنے مسائل کا حل چاہتے ہیں اور درپیش چیلنجز اور مشکلات کا حل محض حکومت کے بس کی بات نہیں ہے مسائل کے حل کیلئے ضروری ہے کہ فریقین سیاسی مخالفت کے باوجود سنجیدگی اور بالغ نظری کا مظاہرہ کرکے سسٹم کو چلنے دیں اور غیر ضروری محاذ آرائی سے گریز کا راستہ اپنایا جائے یہ بات خوش آئند ہے کہ اپوزیشن روزانہ کی بنیاد پر عوامی جلسے کر رہی ہے اور گلگت بلتستان کی انتخابی مہم بھی جاری ہے تاہم فریقین کو ان سرگرمیوں کے دوران تلخ نوائی سے گریز کرنا چاہئے کہ اس میں جمہوریت ملک اورعوام کا بھلا ہے ۔