وزیر اعظم عمران خان گزشتہ روز ایک اعلیٰ سطحی وفد کے ہمراہ افغانستان گئے جہاں ان کا شاندار استقبال کیا گیا اورانہوںنے صدر اشرف غنی کے ساتھ خطے کی صورتحال ،کراس بارڈر ٹیررازم اور مجوزہ انٹرا افغان ڈائیلاگ کے ساتھ ساتھ دو طرفہ تعلقا ت کی از سر نو بحالی اور تجارت کے فروغ پر تفصیلی تبادلہ خیال کیا۔ ان کے وفد میں دوسروں کے ساتھ ساتھ وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی، مشیر تجارت عبدالرزاق داﺅد اور آئی ایس آئی کے سربراہ جنرل فیض حمید بھی شامل تھے۔ ایوان صدر پہنچنے پر ان کا شاندار اور تاریخی استقبال کیا گیا اور ان کو گارڈ آف آنر پیش کیا گیا جسکے بعد ان کے ساتھ تفصیلی تبادل خیال کیا گیا جبکہ باقی تین اہم عہدیداران نے اپنے متعلقہ افغان حکام کے ساتھ بھی دو طرفہ معاملات پر بات چیت کر لی۔ جاری کردہ اعلامیے کے مطابق اس موقع پر خطے بالخصوص افغانستان کی جاری صورتحال ،سیکورٹی کے معاملات اور مجوزہ امریکی انخلاءکے بعد پیدا ہونے والی متوقع صورتحال کے ساتھ ساتھ دو طرفہ طور پر اس بات پر بھی اتفاق رائے کیا گیا کہ دونوں ممالک کی سرزمین ایک دوسرے کے خلاف استعمال نہیں ہوگی۔ رپورٹس کے مطابق پاکستانی وفد نے خطے خصوصاً افغانستان میں بھارت کی منفی عمل دخل پر افغان عہدیداران کو نہ صرف اپنی تشویش اور تجاویز سے آگاہ کیا بلکہ ایسے ثبوت پیش کرنے کی آفر بھی کی جس سے یہ ثابت ہوسکتاہے کہ بھارت افغان دوستی کی آڑ میں نہ صرف افغان سرزمین پاکستان کے خلاف استعمال کرتا آرہا ہے بلکہ وہ انٹرا فغان ڈائیلاگ کی کوششوں کو بھی ناکام بنا نا چاہ رہا ہے ، اس موقع پر پاکستانی وفد نے یہ یقین دہانی بھی کرائی کی وہ نہ صرف تشدد کے خاتمے کیلئے اپنا اثر رسوخ استعمال کریگا بلکہ پاکستان کی سرزمین افغان بد امنی کیلئے استعمال کرنے کی کسی کو اجازت بھی نہیں دیگا۔ اس دورے کے دوران ایک بڑی پیش رفت یہ ہوئی کہ دونوں ممالک کے عسکری اداروں بلخصوص انٹلیجنس ایجنسیوں کے درمیان ایک کوارڈی نیٹنگ سسٹم بنایا جائیگا جس میں انٹلیجنس شیئرنگ بھی شامل ہے تاکہ سرحدوں کو محفوظ بنایا جائے۔دوسری پیش رفت یہ ہوئی کہ دونوں ممالک کی تجارت کو مزید فروغ دینے کی متعدد تجاوزی پر اتفاق رائے کا اظہار کیا گیا اور کمیٹی بنائی گئی۔ وزیر اعظم عمران خان نے پریس کانفرنس اور واپسی پر ایک بیان میںکہا کہ افغانستان کا امن اور استحکام پاکستان کیلئے بہت اہمیت رکھتا ہے اور جاری صورتحال سے پاکستان بہت زیادہ متاثر ہوتا آیا ہے۔ان کے مطابق پاکستان ایک پر امن، ترقی پسند اور خود مختار افغانستان کا نہ صرف خواہاں ہے بلکہ مذاکرات کی کامیابی کیلئے مستقل کردار بھی ادا کررہا ہے۔ انہوںنے کہا کہ دو طرفہ تجارت کا فروغ ان کی ترجیحات میں شامل ہے،کیونکہ اس کازیادہ فائدہ خیبر پختونخوا خصوصاً نئے ضم شدہ اضلاع کے جنگ زدہ عوام کو ملے گا۔ کیونکہ وہ ماضی میںامتیازی سلوک کانشانہ بنے ہیں۔ وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے واپسی پر کہا کہ مذاکراتی عمل فیصلہ کن مرحلے میں داخل ہو چکا ہے اور بہت جلد اس کے نتائج سامنے آجائیں گے۔ انہوںنے کہا کہ افغان حکام کو بھارت کے کردار کے بارے میںپاکستان کے خدشات سے آگاہ کیاگیا ہے اور بہتری کی امید ہے۔افغانستان کے سنجیدہ سیاسی حلقوں نے اس دورے کو اہم قرار دیا ہے جبکہ یورپی یونین نے پاکستان کے کردار کی باضابطہ طور پر تعریف کرکے اس دورے کو نتیجہ خیز ا ور اہم قرار دیا ہے۔ امریکہ نے بھی اس دورے کو اہم کہا ہے اور توقع ظاہر کی ہے کہ اس کے بہتر نتائج برآمد ہونگے۔دوسری طرف چین نے باضابطہ طور پر سی پیک کے بارے میں الزام لگایا ہے کہ بھارت اس کو ناکام بنانے کی سازش کررہا ہے جس کو پاکستان کے تعاون کے ساتھ ناکام بنایا جائیگا۔ ایک جاری کردہ بیان میں چین نے کہا کہ پاکستان کادہشت گردی کے خلاف جنگ میں اہم کردار رہا ہے۔دوسری طرف کابل کے بعض حلقوں اور حکومتی عہدیداروں نے اس موقع کو ضائع کرنے کی اپنی روش جاری رکھی۔ مثال کے طور پر افغان وزیر دفاع کا انہی دنوں یہ الزام سامنے آیا کہ طالبان کے اب بھی پاکستان میں ٹھکانے ہیں ۔ایسا کہتے وقت وہ اقوام متحدہ کی وہ رپورٹ شاید بھول گئے جس میں کہا گیا کہ افغانستان میں موجود تقریباً 6ہزار حملہ آور پاکستان پر حملے کرتے آرہے ہیں اور افغان حکومت ان کاراستہ نہیں روک پار رہی۔ اسی طرح گزشتہ روز القاعدہ کے مرکزی رہنما ڈاکٹر ایمن الظواہری کی افغانستان میں بیماری کے باعث انتقال کی خبر آئی جس سے ثابت ہوتا ہے کہ داعش کے ساتھ القاعدہ بھی وہاں موجود ہے۔ بہر حال تمام تر مشکلات اور بد گمانیوں کے باوجود اچھی بات یہ ہے کہ دونوں ممالک کے تعلقات تیزی سے بہتر ہورہے ہیں۔