پشاور جلسہ کتنا کامیاب کتناناکام؟

سیاسی ‘ عوامی اور صحافی حلقوں میں22 نومبر کو پشاور میںہونے والے پی ڈی ایم کے جلسے پر بحث جاری ہے جبکہ فریقین کی جانب سے جلسے کی کامیابی اور ناکامی کے بارے میںمختلف قسم کے دعوے بھی زیر بحث ہیں حکومت نے اس ایونٹ کو ناکام قرار دے دیا ہے تاہم اپوزیشن کا دعویٰ ہے کہ یہ شرکاءکی تعداد کے لحاظ سے ایک کامیاب جلسہ تھا دوسری طرف صحافتی حلقے اس ایونٹ کو پی ڈی ایم میں شامل بڑ ی پارٹیوں کے حجم کے تناظر میں اگر ناکام کوشش قرار نہیں دے رہے تو اسی دعوے کو بھی مناسب سمجھتے ہیں کہ یہ تعداد کے لحاظ سے کوئی غیر معمولی جلسہ تھا زمینی حقائق تو یہ ہیں کہ جلسے کے بعد صرف اے این پی اور جے یوآئی ہی وہ دو پارٹیاں تھیں جن کے لیڈروںاور کارکنوں نے اس کا دفاع کرتے ہوئے اسے تاریخی جلسہ قرار دے دیا باقی پارٹیاں جلسے سے پہلے یا اس کے بعد خاموش یا لاتعلق ہی رہی ہیں جلسے سے قبل ہی اس کے انتظامات اور اختیارات کے معاملے پر بعض بڑی پارٹیوں خصوصاً جے یو آئی (ف) اور اے این پی کے درمیان اختلافات پیدا ہو گئے تھے ۔کہا جا رہا ہے کہ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن اپنے کارکنوں کو نکالنے میں ناکام رہی جبکہ یہ رویہ بھی دیکھنے کو ملا جس بھی پارٹی کے لیڈر تقریر کرنے کے بعد بیٹھے یا نکلے ان کے کارکن جلسہ گاہ سے چلتے بنے ‘ بعض لوگ جگہ کے نا مناسب انتخاب پر بھی تنقید کرتے پائے گئے ،سوشل میڈیا پر یہ بات بھی زیر بحث رہی کہ پی ڈی ایم کی موبلائزیشن محض سوشل میڈیا پر اپنی اپنی تصاویر شیئر کرنے کی کوشش تک محدود رہی اور بعض خوش فہیماں بھی نقصان کی وجہ بنتی گئیں یہ چونکہ پورے صوبے کی سطح پر ہونے والا پی ڈی ایم کا پہلا پاور شو تھا اس لئے متوقع تعداد ہزاروں میں نہیں بلکہ لاکھوں میں بتائی گئی تھی جو کہ عملاً بہت کم رہی ۔حزب اختلاف کا یہ کہنا ہے حکومت نے نہ صرف ممکنہ رکاوٹیں کھڑی کیں بلکہ جلسے پر خود کش حملے کی اطلاعات یا افواہیں بھی پھیلائی گئیں جس کے باعث پشاور کے مخصوص حالات کے پس منظر میں کارکن اور عوام خوفزدہ ہو گئے اور انہوں نے بھرپور شرکت سے گریز کیا ‘ عین جلسے کے دوران مریم نواز کے اس اعلان نے بھی لیڈروں اور کارکنوں کے ٹمپو کو کافی متاثر کیا کہ ان کی دادی کا انتقال ہو چکا ہے اس لئے وہ تقریر نہیں کریںگی ان کے اس اعلان کے بعد لیگی کارکنوں کے علاوہ وہ عام لوگ بھی جلسہ گاہ سے چلے گئے جو کہ ان کو سننے آئے تھے یہی رویہ پیپلز پارٹی کے کارکنوں کا بھی رہا۔قابل ذکر بات یہ ہے کہ اسی روز گراسی گراﺅنڈ سوات میں جماعت اسلامی کا جلسہ ہو رہا تھا اس میں نہ صرف یہ کہ کارکنوں اور عوام کی بڑی تعداد شریک ہوئی بلکہ اسکے انتظامات بھی بہت بہتر تھے اور ممکنہ حد تک لوگوں نے ماسک کے استعمال پر بھی توجہ دی۔حکومتی حلقوں کا یہ دعویٰ یا کہنا بھی شاید مناسب اور درست نہیں ہے کہ پی ڈی ایم کا پاور شو ناکام رہا ہے دوسرے شہروں کے اجتماعات کا اگر پشاور جلسے کی تعداد سے موازنہ کیا جائے تو کہا جا سکتا ہے کہ یہ کراچی جلسے کے بعد پی ڈی ایم کا دوسرا بڑا شو تھا تاہم انتظامی نقائص اور بعض پارٹیوں کی لا تعلقی اس کو تاریخی جلسہ بننے نہیں دیا اور اگر یہ رویہ پی ڈی ایم میں شامل پارٹیوں کے درمیان مستقبل میں بھی برقرار رہا تو اس سے نہ صرف اس اتحاد کی مجموعی ساکھ متاثر ہو گی بلکہ کارکنوں کے درمیا ن بدگمانیوں میں اضافے اور لا تعلقی کا راستہ بھی ہموار ہو گا اچھی بات یہ رہی ہے کہ یہ جلسہ بعض خدشات اور حملے کی اطلاعات کے باوجود پر امن طریقے سے اختتام پذیر ہوا۔