ماضی کے برعکس گزشتہ چند برسوں کے دوران پاکستان کی خارجہ پالیسی میں متعدد مثبت تبدیلیاں آئی ہیں اور پاکستان کے علاقائی اور عالمی کردار کو نہ صرف یہ کہ سراہا جارہا ہے بلکہ یہ کلیدی اہمیت بھی اختیار کرگیا ہے پاکستان نے جہاں ایک طرف بیک وقت دو بڑی طاقتوں یعنی امریکہ او چین کے ساتھ اپنے تعلقات بہتر اور متوازن رکھے ہیں بلکہ پہلی بار روس کے ساتھ بھی سنجیدہ اور قریبی روابط قائم کردیئے ہیں اسی طرح کوشش کی گئی کہ ایران اور سعودی عرب کے باہمی تعلقات اور کشیدگی کے باوجود دونوں ممالک کے ساتھ بہتر روابط رکھے جائیں ‘پاکستان نے افغانستان کے امن اور مذاکراتی عمل کیلئے عملی طور پر جو کوششیں کیں اس کو اقوام متحدہ‘ امریکہ اور بعض دوسری بڑی طاقتوں نے نہ صرف سراہا بلکہ افغان امن کو پاکستان کی مسلسل کوششوں کے ساتھ مشروط بھی کیا حال ہی میں جب افغان حکومت اور طالبان کے درمیان انٹرافغان ڈائیلاگ کے دوران بدترین قسم کی ڈیڈلاک پیدا ہوئی تو خدشہ پیدا ہوا کہ شاید افغانستان میں پھر سے نوے کی دہائی جیسی صورتحال پیدا ہو مگر پاکستان نے اس ڈیڈ لاک کے خاتمے میں بنیادی کردار ادا کرکے فریقین کو پھر سے مذاکرات کی میز پر بٹھایا اور اس وقت صورتحال یہ ہے کہ دوحا میں افغان حکومت اور طالبان کے درمیان باقاعدہ اور نتیجہ خیز بات چیت کا سلسلہ چل نکلا ہے اور مثبت تبدیلیوں کے امکانات ہیں گزشتہ چند برسوں کے دوران پاکستان اور بھارت کے روایتی تعلقات میں کئی خطرناک مراحل آئے اور کئی بار ایک بڑی جنگ کے خطرات منڈلاتے دکھائی دیئے اسکے باوجود پاکستان نے بھارتی منفی رویئے کو سفارتی سطح پر نہ صرف بے نقاب کیا بلکہ جہاں مزاحمت اور جوابی وار کی ضرورت آن پڑی اس سے بھی گریز نہیں کیا اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ عالمی سطح پر بھارت نے جوساکھ بنائے رکھی تھی وہ بے نقاب ہوتی گئی حال ہی میں جب نائیجریا میں او آئی سی کا سالانہ اجلاس طلب کیاگیا توپاکستان کی کوششوں سے اس کی قراردادوں میں کشمیر میں ہونیوالی انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں اور بھارت کے ہاتھوں مسلمانوں کیساتھ روا رکھے گئے منفی رویئے کی مذمت کی گئی اور ساتھ میں بہت واضح انداز میں بھارت سے یہ مطالبہ بھی کیا گیا کہ وہ مسلمانوں کے حقوق کے علاوہ انکے مقدس مقامات کی حفاظت اور تحفظ کو بھی یقینی بنائے ان قراردادوں اور مطالبات کو اسلئے بہت اہمیت دی جارہی ہے کہ بھارت حالیہ برسوں کے دوران اپنی مارکیٹ اور اکانومی کے پس منظر میں مسلسل یہ کوشش کرتا رہا کہ مسئلہ کشمیر کے معاملے پر بعض اہم اسلامی ممالک اور او آئی سی کو پاکستان اور کشمیریوں کی حمایت سے دستبردار کرایا جائے اورپاکستان پر دباﺅ ڈال کر اسکے موقف کو کمزر کیا جائے سال2020ءاس حوالے سے بھی اہم رہا کہ بعض اہم اسلامی ممالک نے اسرائیل کو تسلیم کیا اور مزید کوشش کی جارہی ہے کہ بعض دوسرے ممالک بھی اسرائیل کو تسلیم کریں ۔