کورونا اور امتحانات

مجھے یاد ہے کہ کورونا وبا کی ابتدا میں کہا گیا کہ یہ تو معمولی سا بخار اور کھانسی ہے مزید یہ کہ اس سے ڈرنا نہیں لڑنا ہے مگر ہوا یہ کہ نہ ڈرنے والوں کا تو کورونا نے کچھ بھی نہیں بگاڑا یعنی بازاروں‘ مارکیٹوں‘ ٹرانسپورٹ اور سیاسی سرگرمیوں میں وہی پرانا طریق اور حسب معمول دھکم پیل مگر ظالم کورونا نے اگر کچھ بگاڑ کے رکھ دیا اور برباد کیا تو وہ محض تعلیم ہے راقم بذات خود اس امر کا شاہد ہے کہ پشاور یونیورسٹی میں11نومبر سے سال2020ءکا جو ماسٹر امتحان چار مہینے کی تاخیر سے شروع ہوا تھا وہ مکمل احتیاط پرہیز اور تمام تر احتیاطی تدابیر کے تحت جاری تھا مگر کیا کریں کہ حکمرانی‘ سیاست اور کاروبار میں سو فیصد بے احتیاطی کرنیوالوں کا سارا نزلہ صرف تعلیم پر آگرا اور یوں تعلیمی اداروں کیساتھ ساتھ امتحانات کو بھی ایک بار پھر منسوخ کردیاگیا یعنی اس بار طلباءکا ایک پورا تعلیمی سال ضائع ہونے میں کوئی شک وشبہ باقی نہیں رہا لوگوں کو یاد ہوگا کہ کورونا سے ڈرنے کی بجائے لڑنے کی نصیحت اور پرچار کرنے والوں نے بعدازاں اس بات کا بھی بڑا چرچا کیا کہ ایک عرصے تک کورونا کیساتھ رہنا ہے کورونا کیساتھ زندگی گزارنی ہے یارلوگوں نے اس پر بھی خوب جی بھر کر عمل کیا یعنی کاروبار‘ بازاروں‘ ٹرانسپورٹ اور سیاسی طور پر اپنے آپ کو زندہ رکھنے کی سرگرمیوں میں کوئی کمی کوئی فرق نہیں آیا اگر فرق پڑا تو وہ محض یہ کہ تعلیم کاپہیہ رک گیا دُھرے معیار والی اس صورتحال میں ہمارے طلباءبالخصوص پرائیویٹ ایم اے کرنے والے بے چارے دو قسم کے اندیشوں سے دوچار ہیں اور اکثر اوقات رابطہ کرکے پوچھتے ہیں کہ امتحان دوبارہ شروع ہونے کا کوئی امکان ہے یا نہیں اور مزید کہ حکومت نے جب دو سالہ بیچلر اور ماسٹر تعلیمی نظام بند کردیا تو اس صورت میں ہمارا کیا بنے گا یعنی فیل پرچوں کا امتحان دینگے یا نہیں؟ معلوم ہوا ہے کہ شعبہ امتحانات پشاور یونیورسٹی نے ایس او پیز یعنی احتیاطی تدابیر کے تحت ایم اے اور بی ایس کالجز کے امتحانات دوبارہ شروع کرنے کی اپنی انتظامیہ اور حکومت دونوں سے اجازت کیلئے تحریری استدعا کی ہے مگر تاحال کوئی شنوائی نہیں ہوئی ایسے میں شعبہ امتحانات کا خدشہ ہے کہ اگر حالت جوں کی توں رہی تو طلباءکا ایک سال ضائع ہونایقینی ہوجائیگا اس ناگفتہ بہ صورتحال میں تعلیم اور طالب علم کا درد رکھنے والے ایک شخص کی یہ بات میرے دل میں اتر گئی کہ اگر حکومت تعلیمی اداروں کی انتظامیہ اور اساتذہ ملک تعلیم کو بچانے کیلئے آگے آئیں تو کوئی وجہ نہیں کہ تعلیمی عمل کی راہ میں رکاوٹ بنے ان کا کہنا تھا کہ جراثیم کش سپرے‘ سینی ٹائزر واک تھرو گیٹ‘ سماجی فاصلہ‘ ماسک اور صابن کو بروئے کار لاکر درس و تدریس کا سلسلہ بخوبی جاری رکھا جا سکتا ہے مگر اس مہم میں حکومت کا حصہ اور کردار کلیدی ہونا چاہئے یعنی سب سے پہلے تو کورونا کے ہاتھوں تباہ حال شعبہ تعلیم کیلئے ایک خصوصی مالی پیکیج کی فراہمی ناگزیر ہے کیونکہ تعلیمی بجٹ میں کٹوتی کے باعث تعلیمی اداروں کی مالی پوزیشن اس حد تک کمزور ہوچکی ہے کہ تنخواہوں اور پنشن کی ادائیگی میں بھی مشکلات کا سامنا کر رہے ہیں بلکہ جامعہ پشاور جیسی قدیم اور بڑی درسگاہ بھی مقروض ہو چکی ہے لہٰذا ظاہر ہے کہ احتیاطی تدابیر کی مکمل پاسداری پر ہونیوالے مالی اخراجات وہ برداشت نہیں کر سکتی اگر حکومت کے پاس پیسے نہ ہوں اور گزشتہ کی طرح اب بھی خزانہ خالی ہو تو حکومت گریڈ20 سے اوپر والے کلیدی عہدوں پر فائز افسران اور اراکین پارلیمنٹ و صوبائی اسمبلی کی تنخواہوںاور الاﺅنسز سے کچھ حصہ کاٹ کر بھی تعلیمی پیکیج کیلئے پیسے اکٹھا کرسکتی ہے بشرطیکہ حکومت کی نظر میں تعلیم بھی کوئی ضروری چیز ہو ورنہ الوداع تعلیم۔