16دسمبر 2014کی صبح آرمی پبلک سکول پشاور پر کرائے گئے بد ترین دہشت گرد حملے کی تلخ یادیں کل چھ برس مکمل ہونے پربھی تازہ ہیں۔ تاہم عوامی سطح پر یہ اطمینان اور اعتماد ایک حوصلہ افزاءامر ہے کہ ریاست نے اس سانحے کے ذمہ داران کو نہ صرف یہ کہ مختلف کاروائیوں کے دوران کیفر کردار تک پہنچایا بلکہ نیشنل ایکشن پلان کے تحت پاکستان سے شدت پسندی اور دہشت گردی کے خاتمے کیلئے لاتعداد ایسے اقدامات کئے جن کا 2014سے قبل تصورنہیں کیا جاسکتا تھا۔ اے پی ایس کے حملے کے نتیجے میں پرنسل اورسٹاف کے16افراد سمیت 133معصوم طلبہ شہید ہوئے۔ حملہ آور فورسز کی جوابی کاروائی میں مارے گئے تاہم اس واقعے نے پاکستان کے ساتھ پوری دنیا کو ہلاکر رکھ دیا اور کئی روز تک مختلف ممالک میں شہداءکی یاد میں ریلیاں نکالی گئیں، شمعیںجلائی گئیں اور مظاہرے کئے گئے۔ واقعہ کے فوراً بعد چند گھنٹوں کے اندر وزیر اعظم نواز شریف کی زیر صدارت ہونے والے ہنگامی اجلاس کے دوران تمام سیاسی اور عسکری قیادت کی باہمی مشاورت اور اتفاق رائے سے تاریخی فیصلے یعنی نیشنل ایکشن پلان کی منظوری دی گئی جس میں پاکستان اور خطے سے شدت پسندی او رانتہا پسندی کے خاتمے کیلئے مربوط طریقہ کار اور روڈ میپ وضع کیا گیا جبکہ اسی روز آرمی چیف جنرل (ر)راحیل شریف اور آئی ایس آئی کے اس وقت کے سربراہ پشاور ہی سے کابل گئے جہاں کاﺅنٹر ٹیررازم کے حوالے سے افغان حکمرانوں اور عالمی اداروں کو بہت واضح پیغام دیا گیا ۔ کیونکہ سانحہ اے پی ایس کے منصوبہ ساز افغانستان میں قیام پذیر تھے۔ا سکے فوراً بعد شمالی وزیر ستان سمیت ملک کے مختلف علاقوں میں ”ضرب عضب اور دیگر آپریشنز کا آغا ز کیا گیا جسکے نتیجے میں ان تمام مراکز اور ٹھکانوں کاخاتمہ کیا گیا جہاں شدت پسند اور ان کے اتحادیوں کاکنٹرول یا اثر تھا جبکہ ایک درجن سے زائد تنظیموں اور گروپوں کو کالعدم قرار دے کر نہ صرف پانچ ہزار دہشت گردوں کو ہلاک اور سولہ ہزار کو گرفتار کیا گیا بلکہ پچاس سے زائد ہارڈ کور کمانڈروں اور حملہ آوروں کو موت کی سزائیں بھی دلوائی گئیں اور افغانستان کے ساتھ پاکستان کی سرحد پر باڑ لگانے کا آغاز بھی کیا گیا اور تقریباً تین سو سے زائد مقامات پر چوکیاں بنائی گئیں تاکہ کراس بارڈر ٹیررازم کا راستہ روکا جا سکے۔متاثرہ خاندانوں کی ذہنی اور اقتصادی بحالی کیلئے ایک بڑے موثر پیکیج کا اعلان کیا گیا، کئی مہینوں تک زخمی بچوں اور شہید بچوں کے لواحقین کو عمرے سمیت مختلف ممالک کے دورے کرائے گئے اور ان کو ذہنی بحالی کے ایک لمبے عمل سے گزارا گیا۔ دوسری طرف بعض والدین کی شکایت پر عدالتی کمیشن کا قیام عمل میں لایا گیا اور کمیشن کی رپورٹ کو چند ماہ قبل پبلک کیا گیا۔جس سے واضح ہوا کہ واقعے کے منصوبہ ساز اور حملہ آور کون تھے اور ا س حملے کے پس پردہ مقاصد کیا تھے۔ واقعے یا حملے میں جن افراد نے حصہ لیا ان کا تحریک طالبان پاکستان کے ساتھ براہ راست تعلق تھا، تاہم جن لوگوں نے اس کی منصوبہ بندی کی وہ ٹی ٹی پی کے اس گروپ سے تعلق رکھتے تھے جو کہ داعش کے طرز فکر سے بہت حد تک متاثر تھے ۔ان میں سے بعض کو پاکستان کے اندر مارا گیا یا پھانسیاں دی گئیں تو بعض کو پاکستان کے مطالبے اور انٹلی جنس شیئرنگ کے نتیجے میں افغانستان میں ڈرون حملوں کے ذریعے نشانہ بنایاگیا۔جن میں سانحہ اے پی ایس کے مرکزی منصوبہ ساز بھی شامل تھا جوکہ جولائی 2016کے دوران ساتھیوں سمیت مارگیا۔ یہ بجا ہے کہ دنیا خصوصاً پاکستان اور پشاور کی تاریخ میں سانحہ اے اپی ایس کے زخم ہمیشہ تازہ رہیں گے تاہم اس حقیقت سے بھی انکار نہیں کیا جا سکتا کہ ر یاست ، اہل سیاست اور عوام نے معصوم شہداءکے خون کو رائیگا ںنہیں جانے دیا بلکہ ان کی قربانی کے بعد اٹھائے جانے والے عملی اقدامات اور قومی اتفاق رائے کا نتیجہ ہے کہ عرصہ دراز کے بعد دہشت گردی کے مسئلے پر پوری قوم یکسو ہو کرلڑی اور آج ماضی کے مقابلے میں پاکستان میں امن و امان کی صورتحال اور قومی پالیسیاں یکسر مختلف اور بہتر ہیں۔