اسلام آباد، سی ٹی ڈی کی فائرنگ سےنوجوان جاں بحق، معاملہ مشکوک، 5اہلکار گرفتار 

اسلام آباد:تھانہ رمنا کے علاقے سیکٹر جی ٹین میں رات گئے انسداد دہشت گردی محکمہ (سی ٹی ڈی) اہلکاروں نے ذاتی رنجش پر اختیارات کا ناجائز استعمال کرتے ہوئے نوجوان کو اندھا دھند فائرنگ کر کے قتل کر دیا۔

 پولیس نے ابتدائی طور پر واقعے کو چھپانے کی کوشش کی تاہم نوجوان مقتول شہری کے والد نے پولیس کی دہشت گردی کا بھانڈا پھوڑ دیا، آئی جی اسلام آباد نے سی ٹی ڈی کے افسران پر ہی مشتمل ٹیم کو انکوائری سونپ دی۔

 وزیر داخلہ شیخ رشید احمد نے واقعے کا نوٹس لیتے ہوئے  پولیس اہلکاروں کی گرفتاری کا حکم دیا جس پر پولیس نے پانچ اہلکاروں کو گرفتار کر لیا۔

 مقتول شہری کے والد کی درخواست پر دہشت گردی کی دفعات کے تحت مقدمہ درج کر لیا گیا۔ واقعہ کے خلاف لواحقین نے نعش سرینگر ہائی وے پر رکھ کر احتجاج شروع کردیا اور دھرنا دیدیا۔

 بعدازاں مقتول کوسپرد خاک کردیا گیا مقتول شہری کے والد نے وزیر اعظم عمران خان اور وزیر داخلہ شیخ رشید احمد سے انصاف دلانے کی اپیل کی ہے۔پولیس نے دو انکوائری کمیٹی بنادی ہیں جبکہ واقعے کی جوڈیشل انکوائری کا حکم چیف کمشنر نے نوٹیفیکیشن جاری کردیا ایڈیشنل ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ پانچ روز میں رپورٹ دینگے۔

 تفصیلات کے مطابق گزشتہ رات سی ٹی ڈی کے پولیس اہلکاروں نے تھانہ رمنا کی حدود میں اسامہ ستی نامی شہری کی گاڑی روک کر چاروں اطراف سے گاڑی پر 17 گولیاں چلائیں جس سے اسامہ ستی کی موت واقع ہو گئی،مقتول کی عمر 21 یا 22 سال تھی اور وہ سیکٹر جی 13 کا رہائشی  اور  طا لبعلم تھا ۔

 ذرائع کے مطابق طالبعلم اسامہ ندیم ستی کا پمز ہسپتال میں پوسٹ مارٹم کیا گیا۔ پوسٹ مارٹم سینئر ایم ایل او ڈاکٹر فرخ کمال نے کیا ہے۔ذرائع کے مطابق اسامہ ندیم کو چھ گولیاں لگی ہیں جن میں سے ایک سر کے عقبی حصے میں اور ایک بائیں بازو پر لگی ہے۔ ذرائع کے مطابق پوسٹ مارٹم رپورٹ میں نشاندہی کی گئی ہے کہ اسامہ ندیم ستی کی پیٹھ پر بھی چار گولیاں لگی ہیں۔ 
 

ابتدائی طور پر پولیس کی جانب سے بیان جاری کیا گیا کہ پولیس اہلکاروں نے مشکوک گاڑی کو رکنے کا اشارہ کیا نہ رکنے پر پولیس نے گاڑی کا تعاقب کیا اور گاڑی کے ٹائروں پر فائرنگ کی جس کے نتیجے میں دو فائر ڈرائیور کو لگے جس سے اس کی موت واقع ہو گئی تاہم مقتول شہری اسامہ ستی کے والد ندیم یونس نے حقائق سے پردہ اٹھاتے ہوئے تھانہ رمنا پولیس کو مقدمہ اندراج کے لئے درخواست دی جس میں موقف اختیار کیا کہ اس کے بیٹے نے بتایا تھا کہ اسلام آباد کے پانچ پولیس اہلکاروں سے تلخ کلامی ہوئی جنہوں نے سنگین نتائج کی دھمکیاں دیں اور کہا کہ تمہیں مزہ چکھائیں گے۔ 

پانچ پولیس اہلکاروں مدثر مختیار، شکیل احمد، سعید احمد، محمد مصطفی اور افتخار احمد سے تلخ کلامی ہوئی تھی، گزشتہ رات دو بجے اسامہ اپنے دوست کو ایچ الیون چھوڑ کر اپنی گاڑی پر واپس آ رہا تھا کہ مذکورہ پولیس اہلکاروں نے اس کی گاڑی کو پیچھے سے ہٹ کیا اور گاڑی کو روک کر چاروں اطراف سے گاڑی پر 17 گولیاں برسائیں جس سے اسامہ کی موت واقع ہو گئی۔

 درخواست میں موقف اختیار کیا گیا کہ پولیس اہلکاروں نے منصوبہ بنا کر اس کے بیٹے کو سر عام قتل کیا جو دہشت گردی کے زمرے میں آتا ہے۔ واقعہ کا تھانہ رمنہ میں مقدمہ درج کرلیا گیا ہے۔

 قتل اورانسداد دہشت گردی کی دفعات شامل کی گئی ہیں۔مقدمے میں قتل کی دفعہ کے ساتھ 7اے ٹی اے بھی لگائی گئی ہے۔

مقدمہ مقتول نوجوان اسامہ کے والد کی درخواست پر درج کیا گیا۔مقدمے میں مدثر اقبال، شکیل احمد، محمد مصطفے، سعید احمد اور افتخار احمد نامی اہلکاروں کو نامزد کیا گیا۔

دریں اثناء مقتول کے ورثاء نعش لیکر سری نگر ہائی وے پر پہنچ گئے اور احتجاجی دھرنا دے دیا ۔ مظاہرے میں تاجر برادری اور عام شہریوں سمیت سینکڑوں  لوگ شریک ہوئے۔

اس موقع پر سرینگر شاہراہ دونوں اطراف سے مکمل طور پر بند کردی گئی اور ٹریفک جام ہوگیا، گاڑیوں کی لمبی قطاریں لگ گئی،مظاہرین وفاقی پولیس کیخلاف نعرے بازی کررہے تھے۔بعدازاں نمازجنازہ کے بعد مقتول کو سپرد خاک کردیا گیا۔