2020 میں سیکورٹی کی صورتحال اور نئے سال کے چیلنجز

طویل انتظار‘ رکاوٹوں اور مبینہ سازشوں کے بعد قطر کے شہر دوحا میں انٹرافغان ڈائیلاگ کا ایک بار پھرآ غاز ہو چکاہے اور فریقین مجوزہ روڈ میپ اور بنیادی نکات پر متفق ہوگئے ہیں اس سلسلے میں پانچ جنوری کو مذاکراتی ٹیموں کا رسمی اجلاس منعقد ہوا جس میں اس بات پر اتفاق کا اظہار کیا گیا کہ تشدد‘ حملوں اور کاروائیوں میں کمی لانے کی بعض شرائط پر باتیں کی جائیں گی اگرچہ طالبان کے بعض اہم لیڈروں کا موقف رہا کہ کسی باقاعدہ معاہدے سے قبل سیز فائر کا کوئی امکان اور جواز نہیں بنتا تاہم امریکہ‘ پاکستان اور افغان حکومت کی کوشش اور اصرار ہے کہ کسی مثبت یا حتمی نتیجے تک پہنچنے کیلئے لازمی ہے کہ طالبان سیز فائر کا اعلان کریں اس ضمن میں نمائندہ خصوصی برائے افغانستان زلمے خلیل زاد نے چارجنوری کو راولپنڈی میں پاکستان کے آرمی چیف قمر جاوید باجوہ اور دیگر اعلیٰ حکام سے ملاقاتیں کیں جبکہ اگلے روز وہ کابل پہنچ گئے جہاں مجوزہ مذاکراتی عمل کے مختلف پہلوﺅں کا ازسرنو جائزہ لیا گیا اور دونوں ممالک کے اعلیٰ حکام کو امریکہ کے ارادوں اور طریقہ کار سے آگاہ کیا میڈیا رپورٹس کے مطابق زلمے خلیل زاد نے یہ یقین دہانی کرائی کہ امریکہ حکومت کی تبدیلی کے باوجود افغانستان سے انخلاءکی اپنی پالیسی پر عمل پیرا رہے گا اور یہ کہ طالبان کیساتھ فروری2020 کے دوران کئے گئے معاہدے پر عمل کیا جائیگا دوسری طرف طالبان کے بعض اہم لیڈروں نے دعویٰ کیا ہے کہ افغان حکومت میں شامل اکثر اہم عہدیداران نے انکے ساتھ کئے گئے رابطوں کے دوران ان کو یقین دہانی کرائی ہے کہ اگر طالبان اقتدار میں آتے ہیں تو وہ ان کی حمایت کرینگے کیونکہ اشرف غنی کی حکومت میں شامل اکثر وزراءاور فوجی افسران ماضی میں مختلف جہادی گروپوں سے وابستہ رہے ہیں ایک امریکی تھنک ٹینک کی حالیہ رپورٹ کے مطابق سال2020 افغانستان کی حالیہ تاریک اور لڑائی کا سب سے بدترین اور خونریز سال ثابت ہوا جسکے دوران طالبان اور داعش نے کابل سمیت پورے ملک میں سینکڑوں حملے کرائے اور حکومت بے بس نظر آئی ادھر افغانستان کی کشیدگی سے پاکستان کے دو صوبے خ©یبرپختونخوا اور بلوچستان بھی سال2020 کے دوران بہت متاثر ہوئے اور اب داعش کی موجودگی اور سرگرمیوں میں اضافے کی اطلاعات نے بھی پاکستان کے متعلقہ اداروں کو الرٹ کردیا ہے معتبر تھنک ٹینک پیپس(PPIS)کی سیکورٹی رپورٹ برائے سال2020 میںکہا گیا ہے کہ اس برس خیبرپختونخوا کے ضم شدہ اضلاع میں نہ صرف یہ کہ حملوں اور ٹارگٹ کلنگ کی تعداد میں اضافہ ریکارڈ ہوا بلکہ ٹی ٹی پی کی ری گروپنگ کا عمل بھی تیز ہوا رپورٹ کے مطابق اس برس پاکستان میں145 دہشت گرد حملے کرائے گئے جن میں80 حملوں کے دوران کے پی کے ضم شدہ اضلاع کو نشانہ بنایا گیا رپورٹ کے مطابق ان حملوں میں تین خودکش اور القاعدہ کے تقریباً 10حملے بھی شامل ہیں رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ 2020 میں پاکستان پر ہونیوالے حملوں میں سے16 کی افغانستان جبکہ100 سے زائد حملوں کی پلاننگ بھارت میں کی گئی یہ بھی بتایا گیا کہ سال گزشتہ کے دوران بلوچستان اور خیبرپختونخوا میں مزاحتمی قوم پرست گروپس بھی نہ صرف یہ کہ بہت فعال رہے بلکہ بلوچستان میں زیادہ تر حملے علیحدگی پسند گروپوں نے ہی کرائے‘ اگرچہPIPS کی سیکورٹی رپورٹ میں موازنہ کی بنیاد پر کہاگیا ہے کہ2019 کے مقابلے میں سیکورٹی کی صورتحال مقابلتاً بہتر رہی مگر مجموعی حالات کو داعش ٹی ٹی پی اور علیحدگی پسندوں کی مجوزہ پلاننگ اور عزائم کے تناظر میں2021 کے دوران پاکستان کے متعدد سنگین چیلنجز کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے یہ امر قابل ذکر ہے کہ اس وقت خطے میں حالات کو خراب کرنے اور امن وامان میں خلل ڈالنے کی کوششیں بھارت کا ایجنڈا ہے تاکہ چین اور پاکستان کے درمیان خطے کی ترقی و خوشحالی کے لئے جو مشترکہ منصوبے پروان چڑھ رہے ہیں ان میں خلل ڈالا جائے تاکہ وہ پاکستان کو نقصان پہنچانے کے اپنے مذموم عزائم کو عملی جامہ پہنا سکے۔