بریک ڈاﺅن اور مسئلے کا مستقل حل

گزشتہ دنوںخیبر پختونخوا سمیت ملک کے تقریباً 70 فیصد علاقوں میں بجلی کی سنٹرل سپلائی سسٹم کی فریکوینسی بریک ڈاﺅن کے باعث بجلی معطل رہی جس کی وجہ سے پاکستان کے عوام اور متعلقہ اداروں میں نہ صرف تشویش کی لہر دوڑ گئی بلکہ حسب روایت مختلف قسم کی افواہیں اور غلط معلومات بھی شیئر کی گئیں اور جان بوجھ کر بے یقینی اور خوف و ہراس کی صورتحال پیدا کی گئی۔ المیہ یہ رہا کہ کئی گھنٹوں تک بریک ڈاﺅن کی وجہ معلوم نہ ہوسکی۔ یہ پہلی دفعہ نہیں ہوا کہ بریک ڈاﺅن کے باعث ملک کے اکثر علاقوں میں اس نوعیت کی صورتحال پیدا ہوئی۔ سال2006 کے بعد تقریباً چار بار ایسا ہوا۔ اب کے بارے حکومت نے ایک مربوط انکوائری کاحکم دینے کے ساتھ ساتھ نصف درجن سے زائد متعلقہ افراد کو معطل بھی کیا ہے تاکہ مسئلے کا حل نکالاجاسکے اور آئندہ کیلئے اس قسم کی صورتحال اور یکطرفہ پروپیگنڈے یا افواہوں سے بچاجاسکے۔ پاکستان میں توانائی خصوصاً بجلی کا مسئلہ اور بحران وہ ایشو ہے جس پر قابو پانا اس ملک کی معاشی اور معاشرتی ترقی کیلئے بہت ضروری ہے اگرچہ سال2008ءکے بعد نیشنل گرڈسٹیشن میں تقریباً 31000میگا واٹ کی بجلی شامل کی گئی ہے جس کے باعث لوڈشیڈنگ میں کافی کمی واقع ہوگئی ہے تاہم سب سے بڑا مسئلہ سپلائی اور ڈسٹری بیوشن سسٹم میں موجود ان مشکلات اور نقائص کا ہے جس کے باعث جہاں ایک طرف اس قسم کے بریک ڈاﺅن سامنے آتی رہی ہیںبلکہ ہزاروں میگاواٹ بجلی لائن لائسز کے باعث ضائع بھی ہوتی آرہی ہے کسی بھی حکومت نے اس مسئلے کا مستقل حل نہیں نکالا کہ کیسے سپلائی سسٹم کو جدید اور فعال بنایا جائے۔ اس کی دو وجوہات بتائی جاتی ہیں۔ ایک تو یہ کہ ایسا کرنے کیلئے ہمیں ہزاروں کلومیٹر پر مشتمل سپلائی سسٹم کو ازسرنو بچھانا پڑے گا۔ اگر ایسا کیا جاتاہے تو متبادل نظام بنانے کیلئے حکومت کو کئی ہفتوں تک بجلی بند کرنا پڑے گی کیونکہ مین سپلائی لائنز کی تعداد اور صلاحیت بہت کم ہے اور ہماری زیادہ بجلی ہائیڈپاورجنریشن سے پیدا ہوتی ہے۔ دوسرا مسئلہ اس قسم کی ازسرنو تشکیل پر آنیوالی لاگت کا ہے جو کہ اربوں نہیں بلکہ کھربوں روپ کی متقاضی ہے۔ ہمارا 40 فیصد سپلائی سسٹم اب بھی وہی ہے جو کہ60 اور70 کی دہائیوں میں قائم کیاگیا تھا۔ ون یونٹ سے قبل واپڈا ہاﺅس خیبرپختونخوا میں تھا کیونکہ ملک کی زیادہ تر پانی سے پیدا ہونے والی بجلی کا مرکز یہ صوبہ تھا اور ملک کی ضرورت زیادہ تر یہاں موجود ڈیمز اور بجلی گھر پیدا کرتے تھے۔ اب بھی تقریباً 10 ہزار میگاواٹ بجلی خیبر پختونخوا میں پیدا ہوتی ہے جوکہ قیمت کے لحاظ سے حیرت انگیز طورپر بہت سستی ہے اور ایک سروے کے دوران2009-10ءمیں بتایاگیا تھا کہ خیبر پختونخوا کی چھوٹی دریاﺅں پر انتہائی کم لاگت سے تقریباً45 ہزار میگاواٹ کی بجلی بہت کم وقت میں پیدا کی جاسکتی ہے۔بدقسمتی سے ون یونٹ کے خاتمے کے باوجود واپڈا ہاﺅس اور سنٹرل پاور سسٹم لاہور اوراسلام آباد میںرکھے گئے جس سے بہت سی تکنیکی مسائل پیدا ہوگئے حالانکہ2004-5 اور اس کے بعد 2009-10ءکے دوران ایم ایم اے اور ا ے این پی کی صوبائی حکومتوں نے وفاقی حکومت سے رسمی طورپر مطالبے کئے کہ نیشنل گرڈ اسٹیشن اور واپڈا ہاﺅس کوماضی کی طرح خیبر پختونخوا منتقل کیاجائے مگران مطالبات پر عملدرآمد نہیں ہوا۔ دوسرامسئلہ شہروں میں موجودبڑے گرڈ سٹیشنز کی کمی اور ان میں جدیدنظام کے فقدان کا ہے تربیلا، ورسک، ملاکنڈ، غازی بھروتا اور منگلہ جنریشن پلانٹس سے مختلف شہروںکوجوبجلی سپلائی ہوتی ہے وہ ان گرڈسٹیشنز میں سٹور کی جاتی ہے جس کے بعد شہروں کو ان کی ضرورت کے مطابق سپلائی کی جاتی ہے۔ یہ سٹیشنزدرکار صلاحیتوں اور ٹیکنالوجی سے محروم ہیں اور اسی کا نتیجہ ہے کہ جب بھی لوڈ بڑھ جاتی ہے یہ کام کرنا چھوڑ دیتی ہیں۔تیسرا مسئلہ کوئلے اور تیل سے پید کرنے والے ان پراجیکٹس کاہے جہاں نہ صرف یہ کہ بہت مہنگی بجلی پیدا کی جا رہی ہے بلکہ بعض تکنیکی مسائل کے باعث بہت سی اورمشکلات بھی پیدا ہوجاتی ہے۔ اس قسم کی صورتحال سے نکلنا وقت کا تقاضا ہے کیونکہ پاکستان کی آبادی جس رفتار سے شہروں میں مستقل ہو رہی ہے اس کے بعد بجلی کی کھپت اور ضرورت ہی پر انحصار کرتی ہیں اور اس نوعیت کی بریک ڈاﺅن سے پوری زندگی رک سی جاتی ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ واپڈا کا قبلہ درست کرکے بجلی کی پیداوار بڑھانے کے علاوہ سپلائی اور سٹوریج سسٹم سمیت ڈسٹری بیوشن کے نظام کو جدید سہولیات کے ذریعے آپ ڈیٹ کیا جائے اور یہ کام فوری طورپر کیاجائے۔