تدریسی عمل کی بحالی‘ احتیاطی تدابیر؟۔۔

تعلیمی حلقوں کے سیانے کہتے ہیں کہ ابھی سے یہ بات یقین سے نہیں کہی جا سکتی کہ تعلیمی ادارے کھلیں گے بھی یا نہیں لیکن حکومت نے تدریسی عمل کو مروجہ طریق پر مرحلہ وار بحال کرنے کا جو اعلان کیا ہے وہ بھی قدرے الٹ نظر آتا ہے مطلب یہ کہ قطار میں بچوں کو آگے اور نوجوانوں کو پیچھے کھڑا کردیاگیا ہے ان کے مطابق پہلے مرحلے میں یونیورسٹیاں ڈگری کالجز دوسرے میں ہائیر سکینڈری اور مڈل جبکہ تیسرے مرحلے میں پرائمری اور نرسری کے بچوں کا نمبر آنا چاہئے تھا بہرکیف ابھی تو دوسرا جائزہ اجلاس اور یہ فیصلہ ہونا باقی ہے کہ کھلیں گے یا نہیں؟ کیونکہ احتیاطی تدابیر اور وباءکے ہاتھوں جانی و مالی نقصانات کا پروپیگنڈا تو کرتے ہوئے ہم تھکتے نہیں مگر احتیاطی تدابیر پر عملدرآمد کروانے کا نظام اور اہتمام دور دور تک نظر نہیں آرہا بلاشبہ کہ کورونا نے دنیا کے نظام زندگی اور نظام معیشت میں اپنے پنجے کچھ اس قدر گاڑ لئے ہیں کہ آئے روز اس کی گرفت مضبوط اور مضبوط تر ہوتی جارہی ہے حالانکہ یہ وہ کورونا ہے جسے ابتداءمیں ملک کے بڑوں نے معمولی سازکام کہہ دیا تھا اس کے بعد چرچا کہاگیا کہ کورونا سے ڈرنا نہیں لڑنا ہے جبکہ اسکے بعد مشورہ آیا کہ یہ وباءجلد لوٹ کر جانے والی نہیں لہٰذا اسکے ساتھ رہ کر زندگی گزارنی ہے یعنی کاروبار زیست اور بودوباش کو جاری رکھنا ہے مگر احتیاط کیساتھ جسے سرکاری زبان میں ایس او پیز(SOPs) کہتے ہیں اب ظاہر ہے کہ احتیاطی تدابیر پر مکمل عملدرآمد تو کم از کم تعلیمی اداروں کیلئے بغیر کسی مالی لاگت کے ممکن ہی نہیں جبکہ جامعات کی مالی پوزیشن اس وقت اس حد تک گھمبیر اور بدتر ہو چکی ہے کہ جب تنخواہیں ملتی ہیں تو پنشن کیلئے کچھ نہیں بچتا اور جب پنشن کی ادائیگی ہو تو حاضر سروس تنخواہ دار خوار ہو جاتے ہیں مالی حالت تو اس قدر مایوس کن ہوگئی ہے کہ جامعات سے منسلک ریسرچ سنٹرز بھی اس پوزیشن میں نہیں رہے کہ اپنے ریسرچ سکالرز کیلئے انٹرنیٹ کی سہولت بحال رکھیں کیونکہ ہر مہینے لاکھوں روپے بل کی ادائیگی اب انکے بس میں نہیں رہی انصاف کا تقاضا تو یہ تھا کہ گزشتہ دور میں ملک بھر کی جامعات کیلئے70 ارب روپے سے زائد جو سالانہ بجٹ مختص تھا وہ اس وقت ایک کھرب ہونا چاہئے تھا مگر اس تلخ حقیقت کو جھٹلایا نہیں جاسکتا کہ مذکورہ تعلیمی بجٹ پر کٹ لگا کر نصف کے قریب کردیاگیا اور یوں یونیورسٹیاں مالی بحران کے دلدل میں پھنس کر رہ گئیں اس تذکرے کا مقصد یہ ہے کہ جامعات تو اس گھمبیر حالت میں اپنے طلباءاور نان ٹیچنگ سٹاف کو احتیاطی تدابیر کے ذریعے کورونا سے بچانے کی استطاعت رکھتی ہی نہیں تو بچاﺅ کیسے ہوگا؟ آیا یہ ضروری نہیں کہ ہم کورونا سے بچاﺅ کے اقدامات میں اپنے دوست ملک چین سے کچھ سیکھ لیں؟ الغرض اگر حکومتی تعلیم کے بارے میں مختلف اور سنجیدہ ہو تو کورونا کے ہوتے ہوئے تعلیم جاری رکھنے کیلئے احتیاطی تدابیر پر ہونیوالے اخراجات میں ایک معقول تعلیمی پیکیج کی فراہمی ناگزیر ہوگی بصورت دیگر ہمارے طلباءکا ایک سال تو ضائع ہوگیا اور دوسرے سال کے بارے میں ابھی سے کچھ نہیںکہا جا سکتا انکے احتجاج کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ بقول انکے عرصہ ہوا کہ سلیکشن بورڈ اور سنڈیکیٹ التواءکا شکار ہیں اور اساتذہ کی ترقیوں سمیت اموراور حقوق لٹک گئے ہیں اب جبکہ جامعہ پشاور جیسی قدیم درسگاہ بدترین مالی بحران سے دوچار ہے اور ٹیچنگ اورنان ٹیچنگ یعنی انتظامی کیڈر کی30فیصد سے زائد پوسٹیں خالی پڑی ہیں ہم صرف یہ دعا اور التجاءکر سکتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نئے وائس چانسلروں کویونیورسٹیاں صحیح خطوط پر چلانے کی توفیق عطا فرمائے۔