یونیورسٹی کامالی بحران اور ڈریس کوڈ

سیاسی ، علمی اور عوامی حلقوں میں ہزارہ یونیورسٹی کی انتظامیہ کی جانب سے وہ اعلامیہ کافی دنوں سے زیر بحث ہے جس میں فیکلٹی ممبران، طلباءاور طالبات کیلئے لباس سے متعلق بعض شرائط کا تعین کیا گیا ہے دوسری جانب باچا خان یونیورسٹی چارسدہ نے بھی ایک اعلامیہ جاری کیا ہے جس میں سیکورٹی خدشات کی آڑ میں چادر پہننے اور سگریٹ نوشی پر پابندی لگائی گئی ہے۔پشاور یونیورسٹی کا ایک فیصلہ بھی سامنے آیا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ مالی بحران کے پیش نظر نئی بھرتی ہونیوالے ملازمین کو پنشن کی سہولت نہیں دی جائیگی۔اکثر ملازمین سٹوڈنٹس اور تجزیہ کاروں نے ان تینوں فیصلوں کوتنقید کا نشانہ بنایا ہے اور اسی تناظر میں ایک نئی بحث بھی شروع ہوگئی ہے۔جہاں تک ہزارہ یونیورسٹی کے ڈریس کوڈ کے اعلامیے کا تعلق ہے اس بارے میں انتظامیہ کا کہنا ہے کہ علاقے کی مخصوص ثقافتی اقدار کے ساتھ ساتھ بعض طالبات اور ان کے والدین کی شکایات ،تجاویز کے تناظر میں یہ اقدام اٹھایا گیاہے کیونکہ یہ یونیورسٹی کسی بڑے یا جدید شہر کی بجائے مانسہرہ جیسے پہاڑی اور دور افتادہ علاقے میں واقع ہے اور مقامی آبادی کے علاوہ مقامی طالبات اور ان کے والدین کی مسلسل شکایات بھی موصول ہورہی تھیں، حکومتی ترجمان کے مطابق اس انتظامی فیصلے پر نظر ثانی کی جاسکتی ہے ا اکثریتی لوگ اس معاملے پر بحث کو غیر ضروری اور نان ایشو قرار دے کر کہتے ہیں کہ مخصوص ثقافتی حالات کے تناظر میں اگر یہ اقدام اٹھایا گیا ہے تواس پراعتراضات کا کوئی جواز نہیں اور یہ کہ فیکلٹی کو اس علاقے کے عوام اور روایات کا بھی خیال رکھنا چاہئے، جہاں کوئی یونیورسٹی یا ایسا کوئی دوسرا ادارہ موجود ہو۔ باچا خان یونیورسٹی پراس سے قبل بد ترین دہشت گرد حملہ کرایا جا چکا ہے، اس لئے وہاں کے فیصلے کو سیکورٹی پوائنٹ آف ویو سے دیکھا جارہا ہے۔جہاںتک پشاور یونیورسٹی کا تعلق ہے تو یہ بھر پور حکومتی توجہ کاحامل مسئلہ ہے کیونکہ اس ادارے کو تمام یونیورسٹیوں کی مادر علمی کا مقام حاصل ہے اور اس کے مالی بحران اور مسائل کو مزید نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔پنشن کے مسئلے اور فیصلے کی وضاحت اور اس پر نظر ثانی کی بھی اشد ضرورت ہے ایسے ہی بحران کاگومل یونیورسٹی اور عبدالولی خان یونیورسٹی مردان سمیت بعض دیگر یونیورسٹیوں کو بھی سامنا ہے۔پیوٹا کے صدر پروفیسر ڈاکٹر فضل ناصر نے حال ہی میں انکشاف کیا ہے کہ فنڈز کی عدم دستیابی کے باعث پشاور یونیورسٹی میں تحقیق کی مد میں ایک پائی بھی خرچ نہیں ہوئی ، حالانکہ ریسرچ ورک کے بغیر کسی فعال یونیورسٹی کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا اوراگر پشاور یونیورسٹی جیسے تاریخی اور قدیم ادارے کا یہ حال ہے تو یہ نہ صرف تشویش ناک بلکہ قابل افسوس بھی ہے۔ یونیورسٹیوں کی سطح پر جنسی ہراسگی اور منشیات کے استعمال کی اطلاعات اور واقعات کا بھی سخت نوٹس لینے کی ضرورت ہے کیونکہ اس رجحان سے طالبات اور ان کے والدین میں بہت تشویش پائی جاتی ہے اور ان مسائل کا مستقل حل ناگزیر ہے۔ حکومتی حلقوں کے مطابق کافی عرصے سے تعلیمی اداروں خصوصاً یونیورسٹیوں میں تعلیمی اور انتظامی اصلاحات کی مختلف تجاویز پر کام جاری ہے تاکہ بعض بنیادی نقائص ،کمزوریوں اور شکایات کا مستقل بنیادوں پرحل نکالا جاسکے اور اس ضمن میں بعض فیصلوں پرعملی اقدامات کا باقاعدہ آغاز بھی ہو چکا ہے۔