حسب توقع افغان طالبان اور امریکہ کے درمیان فروری2020 کے دوران کیا گیا معاہدہ خطرات سے دوچار ہوگیا ہے جبکہ طالبان کے ترجمان ڈاکر نعیم نے کہا ہے کہ امریکہ دوحا معاہدے پر عملدرآمد کا پابند ہے اور طالبان کی پوری کوشش ہے کہ وہ اس معاہدے پر عملدرآمد کو یقینی بنائیں دوسری طرف افغان طالبان نے ہفتہ رفتہ کے دوران کابل سمیت تقریباً ایک درجن صوبوں میں نہ صرف یہ کہ فورسز پر بدترین حملوں کا سلسلہ جاری رکھا بلکہ اس قسم کی اطلاعات بھی سامنے آتی رہیں کہ دوحا کے طالبان مذاکرات کاروں نے امریکہ اور حکومتی ٹیم پر واضح کردیا ہے کہ وہ ایک عبوری حکومت کے قیام کا راستہ ہموار کریں جسکے بعدمجوزہ معاہدے کو حتمی شکل دی جائے اور اسکے نتیجے میں تشدد اور حملوں کی تعداد میں سیز فائر کے ذریعے کمی لائی جاسکے گی امریکہ کی نئی انتظامیہ کے قومی سلامتی کے مشیر جیک سولیوان نے23جنوری کو پہلے باضابطہ بیان میں کہا کہ اگر طالبان نے تشدد کے واقعات اور تعداد میں کمی لانے کے اپنے وعدے کو عملی نہیں بنایا تو امریکہ دوحا معاہدے پر نظرثانی کرنے پر مجبور ہوگا انکے مطابق ڈیل برقرار رکھنے کیلئے لازمی ہے کہ طالبان معاہدے کے تمام نکات پر عمل کریں اور کابل حکومت کے ساتھ جاری مذاکرات کو عملی طور پرآگے بڑھائیں امریکہ کے نئے صدر جوبائیڈن نہ صرف یہ کہ ماضی قریب میں افغانستان کے معاملات میں نائب صدر کی حیثیت سے اہم کردار ادا کرتے آئے ہیں بلکہ اوبامہ حکومت کے دوران ڈرون حملوں میں بے پناہ اضافہ بھی ان کا فیصلہ اور آئیڈیا سمجھاجاتا ہے جوبائیڈن افغانستان کے بارے میں صدر ٹرمپ اور دیگر صدور کے مقابلے میں جہاں کافی مختلف اور جارحانہ رویہ رکھنے کیلئے مشہور ہیں وہاں انکا یہ انٹرویو اور بیان بھی ریکارڈ کا حصہ ہے کہ افغانستان کو بطور ایک متحدہ ریاست چلانا مشکل ٹاسک ہے اوریہ کہ اس کو لسانی بنیادوں پر تقسیم کیا جائے اپنے ایک انٹرویو میں چند ماہ قبل انہوں نے یہ بھی کہا تھاکہ ٹرمپ نے الیکشن جیتنے کیلئے زمینی حقائق کو نظرانداز کرکے افغانستان سے فوجوں کی انخلاءکا معاہدہ اور اعلان کرکے امریکی مفادات کو خطرے میں ڈال دیا ہے اسی تناظر میں سیکورٹی ماہرین پہلے ہی سے خدشہ ظاہر کر رہے تھے کہ اگر جوبائیڈن ٹرمپ کی جگہ نئے صدر بن گئے تو وہ افغان پالیسی اورفوجوں کی انخلاءکے علاوہ فروری2020 کو کئے گئے دوحا معاہدے پر بھی نظرثانی کرسکتے ہیں اور یہ امکان ظاہر کیا جارہا تھا کہ اگر طالبان نے حملوں اور تشدد میں واضح کمی لانے کا راستہ ہموار نہیں کیا تو نئی امریکی حکومت معاہدے پر نظرثانی کے علاوہ جنگ کی شدت میں اضافے اور نئی صف بندی جیسے اقدامات سے گریز نہیں کرے گی معتبر حلقوں کے مطابق جوبائیڈن ڈاکٹر اشرف غنی اور ان کے وزراءکو بھی پسند نہیں کرتے اور انکے بارے میں نئے امریکی صدر کا رویہ کافی مخالفانہ اور منفی رہاہے وہ آن دی ریکارڈ یہ بات کئی بار کہہ چکے ہیں کہ کابل کی حکومت نااہل اور کرپٹ ہے اور امریکہ نتائج کا ادراک کئے بغیر اس حکومت پر اربوں ڈالرز خرچ کرتا آرہا ہے اس صورتحال نے جہاں طالبان کے مذاکراتی ٹیم کو پریشان کردیا ہے اور وہ معاہدے پر عملدرآمد کی یقین دہانی کرارہی ہے وہاں اشرف غنی کی حکومت اور ان ممالک کی تشویش میں بھی اضافہ ہوا ہے جوکہ دوحا معاہدے کے گارنٹرز سمجھے جاتے ہیں طالبان کو افغان حکومت اور فورسز پر نفسیاتی اور جنگی بالادستی حاصل ہے اور اسی کا نتیجہ ہے کہ جس روز جیک سولیوان کا اہم بیان سامنے آیا اسی روز طالبان نے کابل سمیت چھ مختلف شہروں اور علاقوں میں فورسز پر انتہائی منظم طریقے سے حملے کئے جسکے نتیجے میں درجنوں فوجی جاں بحق اور زخمی ہوگئے ماہرین خدشہ ظاہر کر رہے ہیں کہ اگر افغان حکومت اور اسکے اتحادی مجوزہ عبوری حکومت کی طالبان کی بڑی شرط پر آمادہ نہیں ہوئے اور اس تجویز یا مطالبے کو مزید نظر انداز کرکے حملے جاری رکھے گئے تو اس کے نتیجے میں نہ صرف یہ دوحا مذاکراتی عمل بری طرح متاثر ہوگا بلکہ افغانستان میں1995-96ءجیسی صورتحال بھی پیدا ہوگی دوسری طرف پاکستان کی سیکورٹی فورسز نے ہفتہ رفتہ کے دوران جنوبی اور شمالی وزیرستان میں تقریباً چار مقامات پر ٹارگٹڈ کاروائیاں کیں جس کے دوران ہلاک شدگان میں سجنا گروپ کے اہم کمانڈر سید رحیم عرف عابد بھی شامل ہے سیکورٹی حکام کے مطابق قبائلی اضلاع میں مجموعی صورتحال کافی بہتر اور فورسز کے کنٹرول میں ہے تاہم افغانستان کے بگڑتے حالات اور بعض حملہ آوروں کی واپسی کی سختی کیساتھ مانیٹرنگ کی جارہی ہے تاکہ امن وامان کے حالات کو مزید بہتر بنایا جائے اور اس علاقے کی تعمیر و ترقی کے جاری عمل کو کسی تاخیر اور رکاوٹ کے بغیر آگے بڑھا جاسکے۔