اور اب آن لائن امتحانات؟۔۔۔۔

آن لائن امتحانات کے لئے ملک بھر میں بڑا شورشرابہ دیکھنے میں آیا۔ ہمارے پشاور یونیورسٹی کیمپس کے طلباءبھی پیچھے نہیں رہے۔ کہتے ہیں کہ جب کلاسیں آن لائن لی ہیں تو امتحان بھی آن لائن دیں گے۔ اب سوال یہ ہے کہ طلباءنے آن لائن کلاسز لی بھی ہیں یا نہیں؟ حقیقت تو یہ ہے کہ بمشکل تیس فیصد طلباءنے کلاسیں لی ہوں گی اور وہ بھی شہروں اور پوش علاقوں میں رہنے والے طلباءباقی ماندہ طلباءو طالبات جن کا تعلق دور افتادہ پسماندہ علاقوں اور قبائلی اضلاع سے ہے وہ مکمل طوپر اس کھیل سے باہر رہے کیونکہ آن لائن کلاسز کے لئے تھری جی اور فوجی جی انٹرنیٹ کی ضرورت تھی اور وہ ان مذکورہ علاقوں میں سانپ کے پاﺅں یا چڑیا کے دودھ کی مانند تھی۔ تعلیم میں دلچسپی رکھنے والوں بالخصوص طلباءاور اساتذہ کو یاد ہوگا کہ جب کورونا پہلی بار حملہ آور ہوا اور حکومت نے تعلیمی بندش کا فرمان جاری کردیا تو اسلام آباد کے اعلیٰ تعلیمی کمیشن نے یونیورسٹیوں سے آن لائن کلاسز کی ہدایات کیساتھ ساتھ یہ یقین دہانی بھی کرائی تھی کہ طلباءکو کلاسز کے لئے انٹرنیٹ کی سہولت فراہم کی جائے گی جس کےلئے آئی ٹی کی مختلف کمپنیوں سے بات ہو رہی ہے مگر بعد ازاں کیا ہوا؟ یعنی یہ کہ اور تو اور خود یونیورسٹیوں کے اندر بھی انٹرنیٹ میں تعطل کی شکایات آنے لگیں۔ قصہ مختصر یہ کہ جامعات کی تالہ بندی اور مروجہ تدریسی عمل کی بندش کے دوران70 فیصد سے زائد طلباءکلاسز سے محروم رہے مگر اسی کے باوجود ایڑی چوٹی کا زور لگا کر چیختے ہیں کہ ہم سے آن لائن امتحان لے لیں۔ غور طلب امر یہ ہے کہ کلاسیں نہیں لیں تو امتحان کیسے دیں گے؟ اگر دیں گے تو یہ طریق بھی اسی سے مختلف نہیں ہوگا جیسے حکومت نے بغیر امتحان کے طلباءکو اگلی کلاسوں میں بٹھا دیا۔ سنجیدہ حلقوں کا یہ سوال جواب طلب ہے کہ آیا آن لائن امتحان ممکن ہے؟ اگر ممکن ہو بھی جائے تو ایسے میں نقل کی روک تھام کا طریقہ کار کیا ہوگا؟ اس دھرتی، اس کے عوام بالخصوص نوجوان نسل اور تعلیم کا درد رکھنے والے لوگوں کے مطابق پاکستانی کی تاریخ میں کبھی بھی تعلیم اتنی یتیم یسیر اور بے یار ومددگار نہیں ہوئی تھی جس طرح گزشتہ دو ڈھائی سال سے نظر آرہی ہے۔ یعنی حالت یہاں تک بگڑ گئی کہ جامعہ پشاور جیسی قدیم درسگاہ اپنے ملازمین کو پوری تنخواہ دینے سے بھی قاصر ہوگئی اور ایک طلبہ تنظیم اسلامی جمعیت طلبہ نے علامتی طورپر یونیورسٹی کے لئے چندہ کیمپ لگا کر حکومت کو جگانے کی ناکام کوشش کی۔ یہ بات سمجھنا کوئی مشکل نہیں کہ حکومتی اعلان اور یقین دہانی کے باوجود آن لائن کلاسز کیلئے انٹرنیٹ کا انتظام کیونکر نہیں کیاگیا یعنی اس لئے کہ اس کیلئے پیسے درکار تھے اور پیسے تو باقی ماندہ ہر کام اور ہر جہیز کےلئے دستیاب ہیں مگر تعلیم کی بدنصیبی دیکھئے کہ جو بجٹ سابق دور میں مختص تھا وہ بھی کاٹ کر آدھا کر دیاگیا۔ یہ بات ڈھکی چھپی نہیں کہ مہنگائی میں سو فیصد سے لیکر چار سو فیصد تک اضافہ ہوا ہے یعنی جس کی جو مرضی وہ قیمت وصول کرلیتا ہے کیونکہ پوچھنے والا تو کوئی ہے ہی نہیں۔ ایسے میں لازمی طورپر یونیورسٹیوں کے اخراجات کا بڑھنا کوئی باعث حیرت امر نہیں مگر اس کے باوجود تعلیمی بجٹ جو کہ اس بدترین مہنگائی میں کم از کم ایک کھرب یعنی ایک سوبلین ہونا چاہیے تھا ذرا جانچنے والے دیکھ لیں کہ تعلیمی بجٹ کا کیا حشر ہوا؟ اور اس وقت کتنا ہے؟ میرے نزدیک طلباءکو بغیر امتحان کے اپ گریڈ کرنے اور آن لائن امتحان میں بٹھانے کا نتیجہ اس سے بالکل مختلف نہیں ہوگا کہ پاکستان نالائقی میں خود کفیل ہوجائے گا۔ اب چونکہ مروجہ تدریسی عمل ایک بار پھر بحال ہو رہاہے تو دیکھنا یہ ہے کہ اس کیلئے جن احتیاطی تدابیرپاسداری لازمی ہے اس عمل درآمد میں حکومت تعلیمی اداروں کو کتنی اور کس حد تک مالی تعاون فراہم کرے گی؟ اس ضمن میں مجھے حکومت کی تعلیمی ایمرجنسی کا نعرہ بہت یاد آرہاہے جو کہ کہیں بھی نظر نہیں آتی البتہ بیچاری تعلیم ایمرجنسی وارڈ میں وینٹی لیٹر پر پڑی سسکتی ہوئی نظر آرہی ہے جسے بہت جلد آئی سی یو میں منتقل کرنے کا اہتمام تیزی سے ہو رہا ہے۔