ہمارے تعلیمی انتظام و انصرام کے کرتا دھرتا کہتے ہیں کہ دوسالہ بیچلر اور دوسالہ ماسٹر ڈگری کو اس لئے خیر باد کہہ دیا گیا کہ پاکستان کا تعلیمی نظام عالمی معیار کے ہم آہنگ کیا جاسکے۔ کیاواقعی اسی طرح ہے ؟ایسا ہوسکے گا؟میرے نزدیک تو اقوام عالم سے برابری اور ہمسری کے خواب دیکھنے سے قبل ضروری یہ تھا کہ پاکستان میں تعلیم پر خرچ ہونے والے پیسے اور اپنی شرح خواندگی کی دوسرے ملکوں سے برابری اور ہمسری کے بارے میں سوچ و بچار اور عمل کیا جاتا۔ دنیا کے دوسرسے بڑے بڑے ترقی یافتہ ممالک کو چھوڑ کر صرف اس خطے کے ممالک اور پاکستان کے تعلیمی بجٹ اور شرح خواندگی کا بھی اگر ذمہ دارانہ موازنہ کیا جائے تو حقیقت کھل کر سامنے آجائے گی۔ ہمارے ایک نہایت ہی سلجھے ہوئے تعلیم یافتہ دوست سابق وائس چانسلر امتیاز حسین گیلانی نے اپنی بارہ سالہ وائس چانسلر شپ کے دوران کافی کوششیں کیں ، آواز اٹھائی بلکہ ایڑی چوٹی کازور لگایا کہ قومی بجٹ کا کم از کم چار فی صد تعلیم کیلئے مختص ہونا چاہئے مگر ان کی آواز صدا بہ صحرا ثابت ہوئی۔ البتہ اتنا ضرور ہوا کہ موجودہ حکومت میں سرمایہ دار اراکین پارلیمان و صوبائی اسمبلی کی تنخواہوں اور الاﺅنسز یا مراعات میں ان کی مرضی کے مطابق حیران کن بلکہ مضحکہ خیز اضافہ کیا گیا۔ میرا اندازہ تو یہ ہے کہ ان بڑوں کے نزدیک پاکستان اور اس مملکت خداداد کے لوگوں کو تعلیم و تحقیق اور تربیت کی کوئی ضرورت نہیں۔ دیکھا جائے توطاقت واختیار رکھنے والے اگرچاہیں تو تعلیم کے لئے مناسب بجٹ کاانتظام کیاجاسکتاہے۔ بہت سے ایسے اخراجات کو کم کیا جاسکتاہے جن کا ملک وقوم کو اس قدر فائدہ نہیںپہنچتا جس قدر تعلیم کو ترقی دینے سے پہنچے گا ان میں عوامی نمائندوں کے اعزازئیے اور تنخواہیں شامل ہیں۔ جن کی ان کو بظاہر ضرورت نہیں۔ انصاف اور اس حسین اور عظیم ملک سے محبت اور وابستگی کا تقاضا یہ نہیں ہے کہ ان سرمایہ داروں پر خرچ ہونے والے پیسے کا ایک معقول حصہ تعلیم کیلئے مختص ہو ۔ آیا یہ اس ملک میں تعلیم کے مسلسل نظر انداز ہونےکا نتیجہ نہیں کہ جب ہمارے جوان پی ایچ ڈی کےلئے بیرون ملک چلے جائیں تو تعلیم کی تکمیل کے بعد وہاں پر روپوش ہوجاتے ہیں۔ تعلیم او راعلیٰ تعلیمی اداروں کی موجودہ زبوں حالی کے بارے میں حکومت کی جانب سے آئے روز جو موقف سامنے آتا ہے وہ نہ تو قطعی طور پر درست ہے اور نہ ہی اس سے آنکھیں بند کرکے اتفاق کیا جاسکتا ہے۔ ابھی حال ہی کی بات ہے کہ انجینئرنگ یونیورسٹی کی سینیٹ میں باڈی کے سربراہ نے یہ کہتے ہوئے خسارے کا بجٹ واپس کر دیا اور ساتھ ہی حکم دیدیا کہ یونیورسٹی کا اور آڈیٹر جنرل آفس کا آڈٹ منظور نہیں بلکہ تھرڈ پارٹی سے آڈٹ کروا کر سرٹیفیکیٹ کےساتھ دو مہینے میں بجٹ دوبارہ لا کر پیش کریں۔اب ظاہری بات ہے کہ تھرڈ پارٹی تو کوئی فرم ہی ہوگی اور جب فرم سال بھر کے اخراجات کا آڈٹ کرکے سرٹیفکیٹ دیتی ہے تواس کے عوض لاکھوں روپے فیس بھی دینی پڑیگی اور یوں جتنا خسارہ بجٹ میں ظاہر کیا گیا ہے فرم سے آڈٹ کرکے سرٹیفکیٹ لینے کی صورت میں خسارہ مزید بڑھ جائیگا۔ حکومت کا موقف یہ بھی ہے کہ جامعات میں مالی شفافیت کا فقدان ہے یعنی دوسرے لفظوں میں یہ کہ یونیورسٹیوں میں مالی بد عنوانی ہورہی ہے۔ مزید یہ کہ یہاں پر ملازمین کی تعداد ضرورت سے کہیں زیادہ ہے۔ کیا یہ تلخ حقیقت حکومت سے ڈھکی چھپی ہے کہ تعلیم کیلئے جتنا بجٹ درکار ہے اس سے کہیں بہت کم فراہم کیا جاتا ہے اور ساتھ ہی یہ بھی کہ گزشتہ دس مہینوں سے کورونا کے ہاتھوں تعلیمی بندش میں یونیورسٹیوں کے ذرائع آمدن ٹھپ ہوگئے ہیں۔ اب ایسے میں بجٹ میں مطلوبہ اضافہ تو درکنار حکومت نے وباءسے بری طرح متاثر ہونےوالے تعلیمی اداروں کو ریلیف پیکج تک نہیں دیا۔ حکومت سب سے پہلے اپنی آئینی ذمہ داری پوری کرے،تعلیم اور اس ملک کے عوام کو ان کا بنیادی حق دے ، بعد ازں جامعات کا کڑا احتساب ہوتو کسی کو کوئی اعتراض نہیں ہوگا۔