تعلیمی انحطاط‘ وجہ ایک نہیں! 


 ایک وقت تھا کہ قدیم درسگاہ پشاور یونیورسٹی کے1974ء کے ایکٹ کے تحت صوبے کے تمام تعلیمی اداروں کا انتظام و انصرام نہایت بہتر طریق پر ہوتارہا صوبے کے ایک سو سے کہیں زیادہ ڈگری کالجز کے امتحانات جامعہ پشاور کے زیر اہتمام ہوتے رہے اور یوں بیچلر کے طلباء کی تعداد70 ہزار سے زائد تھی جس کے عوض الحاق اور امتحانات کی فیس کے کروڑوں روپے ہر سال جامعہ کو ملتے رہے یہ اس وقت کی بات ہے جب صوبے میں سیاسی بنیادوں پر نئی یونیورسٹیوں کے نام سے کیمپسز بنانے کی ہوا ابھی چلی نہیں تھی اسلامیہ کالج کو محض بی ایس چار سالہ پروگرام کیلئے یونیورسٹی کا درجہ نہیں دیا گیا تھا بلکہ قدیم درسگاہ پشاور یونیورسٹی کا کالج تھا کہنے کا مقصد یہ ہے کہ جس وقت پورے صوبے کے تعلیمی نظام کا دارومدار پشاور یونیورسٹی پر تھا اس وقت یونیورسٹی کے ملازمین یعنی ٹیچنگ اور نان ٹیچنگ سٹاف کی تعداد کتنی تھی؟ اور اب جبکہ یونیورسٹی محض روڈ نمبر2تک محدود ہوگئی ہے اب کتنی ہے؟ یہ تو ہوئی ابتری کی ایک وجہ‘ اس سے آگے جاکر دیکھتے ہیں کہ انجینئرنگ کالج‘ زرعی کالج‘ میڈیکل کالجز اور اسلامیہ کالج کو جامعہ پشاور سے اثاثہ جات سمیت جانے کے باوجود اب بھی سینکڑوں ریٹائرڈ ملازمین کے کروڑوں روپے کی پنشن کی ادائیگی پشاور یونیورسٹی کے ذمے ہے یہ ہوئی دوسری وجہ‘ تیسری اور سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ اسلامیہ کالج اور پشاور یونیورسٹی کی جائیدادیں اونے پونے داموں مافیا کے قبضے میں ہیں جن میں زرعی اور کمرشل دونوں شامل ہیں آج تک کسی بھی حکومت نے اسے واگزار کرکے مارکیٹ ریٹ پر کاروباریوں کے حوالے کرنے کی زحمت گوارا نہیں کی ایک اور بڑی وجہ یہ نظر آرہی ہے کہ تعلیم کے شعبے میں وسیع تر سرمایہ کاری اور تعلیمی بجٹ میں معقول اضافے کی بجائے اس میں کٹوتی کی گئی اب وقت کا تقاضا یہ ہے کہ حکومت وقت سب سے پہلے تعلیمی بجٹ میں مطلوبہ اضافہ کرکے اسکے بعد اپنے ذرائع سے یہ معلوم کرلیں کہ آیا یونیورسٹیوں کے ملازمین ضرورت سے زیادہ تو نہیں؟ یونیورسٹیوں میں بجلی گیس‘ ٹیلی فون کا خرچہ شفاف طریقے سے قواعد کے مطابق ہو رہا ہے یا شاہ خرچی کا عالم ہے؟ کالجز کے دور کے ریٹائر ڈ ملازمین کی پنشن کو اس وقت کی اپنی اپنی یونیورسٹوں میں منتقل کرنا حکومت کی ذمہ داری نہیں؟ آیا یہ معلوم کرنا حکومت کاکام نہیں کہ جامعات میں زیر استعمال گاڑیاں قواعد و ضوابط کے مطابق چلتی ہیں یا شہر ناپرسان ہے؟ ایک اندازے کے مطابق اگر حکومت وقت اصلاحاتی قدم اٹھاکر تعلیمی بجٹ کو ضروریات کے مطابق بڑھائے اور پھر جامعات کے تمام امور اور اخراجات کا کڑا احتساب کرلے اور ساتھ ہی کم از کم پشاور یونیورسٹی اور اسلامیہ کالج کی جائیدادیں واگزار کرنے کیلئے آگے آئیں تو یقین سے کہا جا سکتا ہے کہ ان اداروں کا حکومتی گرانٹ پر انحصار برائے نام رہ جائے گا اسی طرح زرعی یونیورسٹی سے لائیو سٹاک‘ اینمل ہسبنڈری اور باغبانی کے شعبوں میں جبکہ انجینئرنگ یونیورسٹی سے کنسلٹنسی کی خدمات کے حصول کی شکل میں حکومتی تعاون کے دور رس نتائج برآمد ہو سکتے ہیں اسی طرح یہ معلوم کرنا بھی حکومت وقت کی ذمہ داری بنتی ہے کہ تعلیمی اداروں میں ہفتے میں چھ دن کی بجائے پانچ دن جو کام ہو رہا ہے اس میں دن ایک  بجے کے بعد عصر چار بجے تک کتنے لوگ کام کرتے ہیں؟ حقیقت یہ ہے کہ تعلیمی اداروں کے اخراجات پورے کرکے مستقبل میں انہیں اپنے پاؤں پر کھڑا کرنے کی موثر منصوبہ بندی اس پر نتیجہ خیز عمل درآمد اور ساتھ ہی کڑا احتساب وقت کی بنیادی ضرورت ہے اگر سنجیدگی سے تعلیمی بہتری کیلئے کام کرکے نتیجہ خیز اصلاحات کی جائیں تو یہ ناممکن نہیں کہ مستقبل قریب میں اس صوبے کی پرانی جامعات بالخصوص پشاور یونیورسٹی خود کفیل ہو سکے حکومت اگر چاہے تو ایک باقاعدہ ٹاسک فورس جامعات کے تمام معاملات‘ امور اور اخراجات کو قواعد و ضوابط کے دائرے میں لایا جا سکتا ہے اس امر میں دورائے نہیں ہونی چاہئے کہ جامعات محض داخلہ اور ٹیوشن فیس‘ ہاسٹل چارجز اور شعبہ امتحانات کے واجبات سے نہیں  چل سکتیں اور ویسے بھی حکومتوں کی عدم توجہی اور شعبہ تعلیم میں مطلوبہ سرمایہ کاری نہ ہونے کے سبب ہمارے ہاں تعلیم اتنی مہنگی ہوگئی ہے کہ اب غریب تو کیا متوسط طبقے کے بس کی بات بھی نہیں رہی۔