سینٹ کے انتخابات کیلئے مختلف پارٹیوں نے اپنے امیدواروں کا اعلان کر دیا ہے جبکہ حکمران جماعت تحریک انصاف کے سربراہ وزیراعظم عمران خان نے بعض امیدواروں کی نامزدگی پر مقامی تنظیموں، میڈیا رپورٹس اور کارکنوں کے اعتراضات کا نوٹس لیکر ایسے امیدواروں کے ناموں پر نظرثانی کا اعلان کرکے واضح کر دیا ہے کہ کسی بھی پیرا شوٹر کو ٹکٹ نہیں دیاجائے۔ طریقہ کار کے مطابق3 مارچ کو پانچوں اسمبلیوں میں پولنگ کی جائے گی اور اسی روز کامیاب سینیٹرز کا اعلان کیاجائے گا۔ قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے سینکڑوں ایم این ایز اور ایم پی ایز اپنے امیدواروں کوووٹ دیں گے۔ اب کے بار48 نئے سینیٹرز کا انتخاب عمل میں لایاجائے گا۔ اس مقصد کیلئے16 فروری کو جو تفصیلات سامنے آئی ہیں اس کے مطابق ان 48 نشستوں کے لئے کل170 امیدواروں نے کاغذات نامزدگی جمع کرائے ہیں سب سے زیادہ امیدوار تحریک انصاف کے ہیں کیونکہ قومی اسمبلی اور پنجاب، پختونخوا کی اسمبلیوں میں اس پارٹی کے ارکان کی تعداد سب سے زیادہ ہیں۔ دوسرے نمبر پر مسلم لیگ(ن) اور تیسرے نمبر پر پیپلز پارٹی کے امیدواروں کی تعداد ہے۔ حسب معمول آزاد ارکان کی کافی تعداد بھی میدان میں ہیں۔جہاں تک خیبر پختونخوا کا تعلق ہے یہاں پر 12 نشستوں کیلئے مختلف پارٹیوں کے 51 امیدوار میدان میں ہیں جن میں4 آزاد امیدوار،اقلیتی رہنما اور خواتین بھی شامل ہیں۔ پختونخوا میں بھی سب سے زیادہ امیدوار تحریک انصاف ہی کے ہیں کیونکہ کے پی اسمبلی میں اس پارٹی کو غیر معمولی اکثریت حاصل ہے اور ارکان کی تعداد90 سے زائد ہے جو تفصیلات سامنے آئی ہیں اس کے مطابق تحریک انصاف کے 10 امیدوار میدان میں ہیں جن میں شبلی فراز، ثانیہ نشتراور محسن عزیز بھی شامل ہیں جبکہ دیگر امیدواروں میں سے بعض کے بارے میں کہا جا رہا ہے کہ پارٹی کے اندر سے مخالفانہ آواز میںاٹھنے اور شکایات ملنے کے باعث دو یا تین اعلان کردہ امیدواروں کی تبدیلی متوقع ہے۔ رپورٹس کے مطابق وزیراعظم عمران خان نے ٹکٹوں کے معاملے پر بعض اختلافات اور شکایات کا خود نوٹس لیکر نہ صرف سینئر لیڈروں سے مشاورت کی بلکہ گورنر شاہ فرمان اور وزیراعلیٰ محمود ان کو بھی مشاورت اور لائحہ عمل طے کرنے کیلئے خصوصی طورپر اسلام آباد طلب کیا تاکہ 2018ءکی طرح بعض ممبران اسمبلی کو ووٹ بیچنے سے روکاجاسکے۔ سال2018ءکے الیکشن میں ووٹ بیچنے کی اطلاعات نے جہاں صوبے اور حکمران جماعت کی ساکھ کو بہت نقصان پہنچایا تھا وہاں عمران خان نے کے پی اسمبلی کے اپنے20 ممبران کے خلاف کاروائی کرکے ان کو پارٹی سے بھی نکال دیا تھا۔ 3 مارچ کے سینٹ الیکشن کیلئے بلوچستان عوامی پارٹی کے 3 امیدواروں سمیت4 آزاد امیدواروں نے بھی انٹری ماری ہے جبکہ مسلم لیگ(ن) نے خیبر پختونخوا سے 3، اے این پی نے 4 پیپلز پارٹی نے 3، جماعت اسلامی نے 4 جبکہ جے یو آئی نے بھی4 امیدوار میدان میں اتار لئے ہیں حالانکہ اسمبلی میں اگر ان پارٹیوں کی مجموعی عددی اکثریت کو دیکھاجائے تو جنرل سیٹوں پر ان سب کے حصے میں چار یا پانچ نشستیں آسکتی ہیں۔ اس سلسلے میں گزشتہ روز پی ڈی ایم کا ایک صوبائی اجلاس پشاور میں منعقد ہوا جس کا مقصد سینیٹ میں مشترکہ امیدوار لانے کا لائحہ عمل طے کرنا تھا مگر ابتدائی طورپر فریقین کسی حتمی فیصلے یا فارمولے پر نہیں پہنچے۔ اے این پی کی سابق صوبائی وزیر اور مخرف سینیٹر ستارہ آیاز نے غیر متوقع طورپر بلوچستان عوامی پارٹی میں سینٹ کا ٹکٹ حاصل کرنے کی غرض سے شمولیت اختیار کرلی ہے اور یوں زیادہ امکان یہ ہے کہ وہ بلوچستان سے سینیٹر بن جائے گی۔ اس فیصلے پر ان کو سوشل میڈیا اور عوامی سطح پر سخت تنقید کا سامنا ہے۔ اگر اب کے بار سینیٹ الیکشن میں 2018ءکی طرح پیسہ نہیںچلا تو قوی امکان ہے کہ تحریک انصاف سب سے بڑی پارٹی کے طورپر سامنے آجائے گی اور اس کے نئے سینیٹرز کی تعداد 20 سے 25 کے درمیان ہوسکتی ہے تاہم اس کیلئے ضروری ہے کہ ممبران اسمبلی کو ہارس ٹریڈنگ سے بچا کر رکھاجائے اور اس الیکشن کو پیسے اور دباﺅ سے دور رکھا جائے۔